|
ویب ڈیسک _ کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ بھارت نے یہ سوچ کر انتہائی خوف ناک غلطی کی ہے کہ وہ کینیڈا میں اسی جارحانہ انداز میں مداخلت کر سکتا ہے جس طرح اس نے کینیڈا کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر کے کی تھی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق کینیڈین وزیرِ اعظم کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دو دن قبل ہی کینیڈا نے بھارت کے چھ سفارت کاروں کو ملک بدری کا حکم دیا تھا۔
بھارتی سفارت کاروں پر الزام ہے کہ ان کا تعلق بھارت کے علیحدگی پسند سکھ رہنما کے کینیڈا میں قتل سے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر بھارت مخالف عناصر کو بیرونِ ملک نشانہ بنانے کی ایک وسیع کوشش کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایک برس قبل کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے بعد سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ البتہ اب کینیڈا کے وزیرِ اعظم کی جانب سے انتہائی سخت بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول کینیڈا اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی کے مزید اقدامات کر سکتا ہے۔ البتہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم بدھ کو کمیشن آف انکوائری میں پیش ہوئے تھے جہاں انہوں نے بیان دیا تھا کہ ان کے پاس خفیہ اداروں کی معلومات تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے بھارت کے علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کو ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
بھارت نے کینیڈا میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کی ہے۔ البتہ اس نے کینیڈین حکومت کے اقدام کے جواب میں کینیڈا کے چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
کینیڈین وزیرِ اعظم کے حالیہ بیان کے جواب میں بھارت نے کہا ہے کہ کینیڈا نے نئی دہلی کے ساتھ کسی قسم کے شواہد کا تبادلہ نہیں کیا۔
بھارتی وزیرِ خارجہ کے رات گئے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا نے بھارت اور اس کے سفارت کاروں پر عائد کیے گئے سنگین الزامات کے کسی بھی قسم کے ثبوت فراہم نہیں کیے جب کہ نئی دہلی مسلسل اس کا تقاضہ کر رہا ہے۔
نئی دہلی نے بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات کی خرابی کی ذمہ داری بھی کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو پر عائد کی ہے۔
گزشتہ برس جون میں 45 سالہ سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر کو مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے ایک گرودوارے کے باہر اپنی کار میں بیٹھے تھے۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں بھی اپنے ایک بیان میں بھارت کو اس قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کینیڈا نے ان الزامات سے متعلق کبھی بھی شواہد پیش نہیں کیے۔
جسٹن ٹروڈو کے بیان کے بعد گزشتہ سال ہی بھارت نے کینیڈا سے نئی دہلی میں اپنے سفارتی عملے میں کمی کا مطالبہ کیا تھا جس پر کینیڈین حکومت نے 40 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔
رواں برس جون میں کینیڈین پارلیمان کی ایک کمیٹی نے انٹیلی جینس معلومات کی بنیاد پر چین اور بھارت کو کینیڈا کے جمہوری اداروں کے لیے بڑا غیر ملکی خطرہ قرار دیا تھا۔
کینیڈا میں بھارت کے ہائی کمیشن نے اس رپورٹ کو سیاسی اور سکھ علیحدگی پسندوں کی مہم قرار دیا تھا۔
رواں برس کے آغاز پر کینیڈین وزیرِ اعظم نے نجر کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ اس سنگین نوعیت کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھارت تعاون کرے گا۔
کینیڈا میں پولیس ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں کم از کم چار گرفتار بھی کر چکی ہے۔ پولیس نے گرفتار افراد پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں کہ ان افراد کا بھارت کی حکومت سے کسی قسم کا تعلق تو نہیں ہے۔
علاوہ ازیں امریکہ بھی کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے واقعے کو سنگین معاملہ قرار دے چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق قتل کی سازشوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا مبینہ کردار ایک سنگین معاملہ ہے۔ امریکہ اسے بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے اور اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہے گا۔
امریکہ کا محکمۂ خارجہ بھی کہہ چکا ہے کہ بھارت میں تحقیقاتی کمیٹیوں کے نتائج کی بنیاد پر نئی دہلی کی حکومت سے جواب دہی کی توقع ہے۔ امریکہ اضافی معلومات کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
محکمۂ خارجہ کے مطابق امریکہ اپنے تحفظات کو براہِ راست بھارت کی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھاتا رہے گا۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں کینیڈا کے بین الاقوامی طلبہ کا سب سے بڑا گروپ بھارت کے شہریوں کا ہی رہا ہے جب کہ بڑی تعداد میں بھارتی روزگار کے سلسلے میں بھی کینیڈا کا رخ کرتے ہیں۔
کینیڈا میں 2022 میں آنے والے 41 فی صد طلبہ کا تعلق بھارت سے تھا۔ ان طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق بھارتی ریاست پنجاب سے ہوتا ہے۔ پنجاب میں سکھوں کی بڑی آبادی بھی ہے۔ یہاں ایک طویل عرصے سے علیحدہ ریاست خالصتان کے لیے تحریک چلائی جا رہی ہے۔
کینیڈا میں لگ بھگ آٹھ لاکھ سکھ آباد ہیں اور 2021 میں بھارت کے بعد یہ دنیا کی دوسری بڑی سکھ کمیونٹی کی جگہ بن گئی تھی۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔