رسائی کے لنکس

ججز ریٹائرمنٹ آئینی ترمیم؛ اپوزیشن کی مخالفت، ابہام برقرار


  • موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ماہ اکتوبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔
  • حکومت نے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے متعلق ترمیم لانے کا عندیہ دیا ہے، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔
  • مجوزہ ترامیم میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس سے بڑھا کر 68 کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
  • موجودہ صورتِ حال میں قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ لیکن سینیٹ میں انہیں مطلوبہ تعداد نہیں مل سکی ہے: ماہرین

اسلام آباد -- سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور ماہرین کی جانب سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

کئی روز سے یہ معاملہ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ماہ اکتوبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

حکومت نے اس حوالے سے ایک آئینی ترمیم لانے کا بھی عندیہ دیا ہے، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اُن کے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی مجوزہ آئینی ترمیم کا ذکر کیا تھا۔

تاہم چیف جسٹس کے بقول اُنہوں نے وزیرِ قانون کو جواب دیا کہ وہ انفرادی اور مخصوص قانون سازی قبول نہیں کریں گے۔

مجوزہ ترامیم میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس سے بڑھا کر 68 کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

اس بارے میں اپوزیشن نے مزاحمت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ فردِ واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئینی ترمیم کی جا رہی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا بھی کہنا تھا کہ فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی میں ایکسٹینشن کا کلچر غلط ہے ایکسٹینشن دینے کی روایت آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔

سپریم کورٹ کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس نے وزیر قانون کو کہا تھا کہ اگر یہ تجویز انفرادی طور پر مخصوص ہے اور اگر اسے نافذ کیا جاتا ہے تو یہ ایسی چیز نہیں ہو گی جسے وہ قبول کریں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے کیوں کہ ججز کے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے لیے آئینی ترمیم کرنا ہو گی جس کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ لیکن سینیٹ میں انہیں مطلوبہ تعداد نہیں مل سکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کو دو تہائی اکثریت ملتے ہی آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جائے گا۔

'مستقبل میں حکومت کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں'

سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت اس وقت ججز کی مدتِ ملازمت میں اضافہ چاہتی ہے اور ان کی خواہش ہے کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید تین سال تک اس عہدے پر موجود رہیں۔

لیکن ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ مستقبل میں حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی قانون سازی جو کسی خاص شخصیت کے لیے کی جائے وہ ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ ابھی تو حکومت اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کر لے گی۔ لیکن بعد میں انہیں اس قانون کا نقصان ہو گا۔

ریاض حنیف راہی کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومتی اخراجات کم کرنے کی بات ہوتی ہے اور دوسری جانب ججز کی تعداد میں اضافے اور ساتھ ہی عمر کی حد میں اضافے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ ریاض حنیف راہی نے 2019 میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اُن کے بقول ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ ججز کی پہلے ہی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں کیسز سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔

ریاض حنیف راہی کہتے ہیں کہ ایسے میں انصاف کے لیے ججز کی تعداد بڑھانے یا عمر کی حد بڑھانے سے نہیں بلکہ دن رات محنت کر کے ان کیسز کی تعداد کو ختم کرنے سے انصاف ہو گا۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے انہوں نے اب تک کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ نئے عدالتی سال کے آغاز پر بھی چیف جسٹس نے تمام معاملات پر بات کی لیکن اس اہم ایشو پر انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔

مطیع اللہ جان کے بقول 25 اکتوبر کو چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت ختم ہو رہی ہے اور جب گزشتہ روز چیف جسٹس کی صحافیوں سے گپ شپ ہوئی تو اس کے بعد کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے۔

لیکن اُن کے بقول اس بات کو مبہم رکھا گیا کہ آیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تو پھر وہ توسیع لیں گے یا نہیں۔ اس بات کی وجہ سے اب تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا 25 اکتوبر جو ان کی ملازمت کا آخری دن ہے، اس کے بعد وہ اس عہدے پر رہیں گے یا نہیں۔

مطیع اللہ جان کے بقول چیف جسٹس کے بیان اور بعد میں آنے والی پریس ریلیز کے بعد انہوں نے ایک دروازہ اب تک کھلا رکھا ہے اور ان کا یہ جملہ بہت محتاط اور نپا تلا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG