رسائی کے لنکس

کوئٹہ: توہینِ مذہب کا ملزم پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل


  • کوئٹہ میں توہینِ مذہب کے الزام میں زیرِ حراست ملزم پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک
  • ملزم کو بدھ کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے کینٹ تھانے منتقل کیا گیا تھا۔
  • حکام نے بتایا کہ ملزم کو فائرنگ کر کے قتل کرنے والے اہلکار کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور اس سلسلے میں مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔
  • ملزم کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ مبینہ طور پر توہینِ مذہب کر رہا تھا۔
  • ملزم کو عوام کے حوالے کرنے کے لیے ملزم کی رہائش گاہ اور ہوٹل کے باہر احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں توہینِ مذہب کے الزام میں زیرِ حراست ملزم کو پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پولیس اہلکار نے اپنی سرکاری رائفل سے ملزم کو نشانہ بنایا۔

کوئٹہ پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملزم کو بدھ کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے کینٹ تھانے منتقل کیا گیا تھا۔

حکام نے بتایا کہ ملزم کو فائرنگ کر کے قتل کرنے والے اہلکار کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور اس سلسلے میں مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔

قتل ہونے والے شخص کی لاش کو سول اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ضروری کارروائی کے بعد لاش ورثا کے حوالے کی جائے گی۔

کوئٹہ کینٹ تھانے کے ایک اور اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ملزم کو تھانے میں منتقل کیا گیا تو پولیس اہلکار طیش میں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اہل کار نے لاک اپ میں داخل ہو کر مقتول پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے باعث وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔

یاد رہے کہ بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ملزم ڈرائیونگ کے دوران ایک ویڈیو بنا رہا ہے۔ ویڈیو میں ملزم تحریکِ انصاف کے ایک رہنما کی گرفتاری پر حکومت اور علما کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی مبینہ طور پر توہینِ مذہب بھی کر رہا ہے۔

یہ ویڈیو پشتو زبان میں ریکارڈ کی گئی ہے جس کی تاحال آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب پاکستان میں توہینِ مذہب کے ملزم کو عدالتی کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی ہجوم کے ہاتھوں یا انفرادی طور پر ہلاک کر دیا گیا ہو۔ تاہم حالیہ عرصے میں پولیس حراست میں ملزم کو قتل کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

گزشتہ سال اگست میں بھی بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں ایک استاد کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا گیا تھا اور یہ واقعہ تربت میں اپنی توعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

بدھ کو اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس جبل نور کے قریب مشتعل مظاہرین نے روڈ بلاک کی اور اس واقعے کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔

اسی مقام پر ملزم کا ایک ہوٹل اور فلیٹ بھی موجود ہے جہاں مظاہرین نے دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی۔

عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملزم عرصہ دراز سے اس علاقے میں اپنا ہوٹل چلا رہا تھا۔

ان کے بقول بدھ کی صبح ہم نے دیکھا کہ بعض علما اور عام عوام نے اس علاقے میں روڈ بلاک کی اور کہا کہ یہ شخص ایک ویڈیو بیان میں توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مظاہرین کافی مشتعل تھے اور وہ انتظامیہ سے ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ واقعہ خروٹ آباد پولیس اسٹیشن کے حدود میں رونما ہوا ہے۔

واقعے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر سٹی اور ایس ایچ او خروٹ آباد پولیس اسٹیشن موقع پر پہنچے اور مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کیے۔

بعدازاں مظاہرین منتشر ہو گئے تاہم بدھ کی شام جب مظاہرین کو یہ معلوم ہوا کہ پولیس نے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے مرتکب شخص کو گرفتار کر کے تھانہ خروٹ آباد میں بند کیا ہے تو دوبارہ مظاہرین نے خروٹ آباد تھانے دھاوا بولا اور تھانے کے مرکزی دروازے کو توڑنے کی کوشش کی۔

ادھر حکام نے کسی بھی ںاخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ملزم کو خروٹ آباد تھانے سے کوئٹہ کینٹ تھانے منتقل کیا۔

ملزم کے بیٹے نے بدھ کو ایک ویڈیو جاری جس میں اُن کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اُن کے والد سے سنگین غلطی ہوئی جس پر وہ اُمتِ مسلمہ سے معافی مانگتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ لاعلمی یا ذہنی توازن کی خرابی کے باعث والد کی زبان سے ایسے الفاظ نکلے۔

پولیس نے اس واقعے میں ویڈیو بنانے والے دوسرے شخص کو نامزد کیا ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG