|
کراچی — ’’میری بیٹی چلا رہی تھی۔ امی مجھے بچالیں، بابا مجھے بچالیں۔ اس کے چہرے پر پڑا تیزاب اس کے چہرے کی جلد کو ایسے پگھلا رہا تھا جیسے موم پگھلتی ہے۔ میں یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہو گئی تھی۔‘‘
یہ کہنا ہے کہ 66 سالہ خالدہ کا جن کی جوان بیٹی پر اس وقت تیزاب پھینکا گیا جب وہ ان کے ہمراہ گاڑی سے اتر کر گھر کے دروازے کی طرف جا رہی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مسز خالدہ نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ "میری بیٹی نے بہاولپور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تو خاندان اور باہر سے اس کے رشتے آنے لگے۔ میرے سسرال سے ایک خاندان والے رشتے کے لیے تین سال سے تقاضا کر رہے تھے۔ لیکن مجھے اور میری بیٹی کو وہ لڑکا چال چلن کے سبب پسند نہیں تھا۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک روز ان کے گھر کے بڑوں اور اس لڑکے نے ہمارے گھر کافی ہنگامہ کیا اور لڑکا یہ کہہ کر گیا کہ اگر آپ کی بیٹی کی شادی مجھ سے نہیں ہوئی تو کہیں بھی نہیں ہو گی۔
ان کے مطابق ’’اس واقعے کے اگلے تین ماہ میں ہم نے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کیا۔ ہم شادی کی تیاریاں کر رہے تھے کہ میری بیٹی پر موٹر سائیکل پر آنے والے دو لڑکوں نے تیزاب پھینکا اور فرار ہو گئے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ آج اس واقعے کو 15 برس بیت چکے ہیں۔ ہم نے اپنی بچی کا کہاں کہاں علاج نہیں کرایا۔ اب وہ کینیڈا منتقل ہو چکی ہے۔ لیکن ہم نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کس نے یہ کیا تھا، پولیس کو رپورٹ نہیں کیا کہ بدنامی ہماری بیٹی کے حصے میں آتی۔ ہمارے گھر میں دو بچیاں اور بھی تھیں۔
’’ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ جس بچی کا چہرہ تیزاب سے جلتا ہے اس کے ساتھ ساتھ پورا خاندان بھی جلتا ہے۔‘‘
سندھ کی پولیس کے مطابق 2023 میں صوبے میں تیزاب گردی کے کل 12 کیسز جب کہ 2024 میں ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’سمائل اگین فاؤنڈیشن‘ تیزاب گردی سے متاثر خواتین کے علاج کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق پاکستان میں سالانہ 200 سے زائد تیزاب گردی کے واقعات ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے ان میں سے بیشتر کیس رپورٹ بھی نہیں کیے جاتے۔
ایک ہفتہ قبل بلوچستان کی ایک خاتون پولیس اہلکار پر ان کے شوہر نے تیزاب پھینک دیا تھا جس سے ان کا جسم جھلس گیا۔ ان کے شوہر دونوں بچوں کو لے کر فرار ہوگئے تھے۔
پولیس کے مطابق خاتون کا تعلق بلوچستان کے علاقے حب سے ہے۔ ان کے شوہر انہیں کراچی لے کر آئے تھے۔
تیزاب گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات ملک بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق تیزاب گردی کے زیادہ تر واقعات سندھ اور پنجاب میں رونما ہوتے ہیں۔
پولیس کے مطابق رشتہ مسترد یا شادی ختم ہونے، خاندانی اور ذاتی چپقلش کے سبب ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور کراچی کے سول اسپتال کے برنز وارڈ کی سربراہ ڈاکٹر سامعیہ تسلیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2023 میں تیزاب سے جھلسنے والے مریضوں کی تعداد 29 تھی جن میں حادثاتی طور پر تیزاب سے جھلسنے والے مریض زیادہ تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2024 میں اب تک کل 10 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جو تیزاب سے متاثر مریضوں کے تھے۔ ان کیسز میں تین ایسے کیس بھی ہیں جو حال ہی میں اسپتال لائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے اس اسپتال میں ملک بھر سے مریضوں کو علاج کے لیے لایا جاتا ہے۔ لیکن تیزاب کے سبب زخمی یا متاثرہ افراد کی بڑی تعداد سندھ سے ہی ہوتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیزاب گردی یا آگ سے جھلسنے کے جرائم کی سزا زیادہ سے 14 برس اور کم سے کم تین سال قید بامشقت ہے۔
’آج میں زندہ تو ہوں لیکن لوگوں کا سامنا نہیں کرتی‘
کنول حماد پر ان کے سابق شوہر نے تیزاب پھینکا تھا۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2008 میں ان کے چہرے پر سابقہ شوہر نے اس وقت تیزاب پھینکا جب وہ اپنی والدہ کے گھر دو بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ ان کے بقول اس وقت ان کی عمر 22 برس تھی۔
کنول نے اپنا علاج تو کرایا۔ لیکن کورٹ کچہریوں کے ڈر سے اس واقعے کے خلاف پولیس کے پاس رپورٹ درج نہیں کرائی۔
کنول کے مطابق ان کا علاج آج بھی جاری ہے۔ تیزاب کے سبب ان کا چہرہ، ہاتھ، گردن اور بازو متاثر ہوئے تھے۔ کنول اب ایسے کیسز میں متاثرہ خواتین کے لیے آواز بھی اٹھاتی ہیں۔
رابعہ (فرضی نام) پر تیزاب پھینکنے والا ان کا کزن تھا۔ 23 سالہ رابعہ اب تک 11 سرجریوں کے عمل سے گزر چکی ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کے والدین نے شہداد پور سے کراچی نقل مکانی کی۔
رابعہ کا کہنا تھا کہ جس وقت مجھ پر تیزاب پھینکا گیا ایسا لگا کہ مجھے کسی نے جلتی ہوئی بھٹی میں ڈال دیا ہے۔ ایک بوڑھے شخص کی آواز آ رہی تھی کہ "پانی لاؤ بچی پر پانی ڈالو۔"
ان کے بقول ’’میری ایک آنکھ، ناک اور کان تیزاب سے ضائع ہوئے۔ کئی سرجریوں کے بعد جب میں نے ایک روز آئینے میں خود تو دیکھا، تو سوچا کہ اس سے اچھا تھا کہ میں مر جاتی۔ آج میں زندہ تو ہوں لیکن لوگوں کا سامنا نہیں کرتی۔‘‘
بازاروں میں کھلے عام تیزاب کی فروخت
گھر میں فرش کی صفائی یا نالیاں کھولنے کے لیے اکثر و بیشتر بازار سے تیزاب منگوانا عام بات ہے۔
یہ تیزاب کسی پوچھ گچھ کے ساتھ ملتا ہے یا نہیں اس سوال کے ساتھ جب کراچی کے ایک مصروف بازار واٹر پمپ کا رخ کیا جہاں گھریلو استعمال کی اشیا با آسانی دستیاب ہیں۔ ایک دکان پر کپڑے دھونے کا کھلا پاؤڈر اور کیمیکل کے ساتھ کچھ بوتلیں بھری نظر آئیں۔
ایک دکان دار سے کہا کہ میرے کچن میں گندے پانی کی نالی اکثر بھر جاتی ہے اس کے لیے کیمیکل چاہیے۔
دکاندار نے جھٹ سے میرے سامنے ایک بوتل رکھتے ہوئے کہا کہ یہ لے جائیں۔ یہ ذرا ہلکا ہے اسے ڈالنے کے 15 منٹ بعد واش بیسن کا نل کھولیے گا۔
دکان دار کو جب کہا گیا کہ ہلکا نہیں کوئی ایسا ایسڈ چاہیے جو سیکنڈوں میں اپنا کام کرے۔
تو دکان دار نے فرش پر رکھی ایک بوتل اٹھاتے ہوئے بتایا کہ پھر یہ لے جائیں۔ لیکن یاد رکھیں یہ اتنا تیز ہے کہ اس کا چھینٹ بھی اگر ہاتھ پر پڑ گیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ یہ کام آپ کسی مزدور سے کروائیں۔ اس کی بد بو بھی بہت تیز ہے۔ اس بوتل کی قیمت مجھے 300 روپے بتائی گئی۔
اس سوال پر آپ لوگ یہ تیزاب لاتے کہاں سے ہیں؟ تو جواب ملا کہ کراچی کے جوڑیا بازار میں اس کی بے یشمار دکانیں ہیں ۔
جب پوچھا گیا کہ اسے رکھنے کے لیے کوئی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے؟ تو دکان دارنے چونک گیا اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ گھر کا گٹر کھولنے کے لیے تیزاب چاہیے یا دکان بند کرانے کے لیے کسی نے بھیجا ہے؟
میں نے یہ کہہ کر کہ اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہی ہوں کہ لوگ ایسے ہی لے جائیں اور کسی کا نقصان کر دیں۔ تو دکان دار نے کہا کہ نہیں نہیں ہم ایسی چیز نہیں رکھتے۔ لیکن جو آپ کہہ رہی ہیں وہ آپ کو صدر، جوڑیا بازار، کیمیکل مارکیٹ میں بہت مل جائے گا۔ یہ بتاتے ہوئے دکان دار کا لہجہ اب ڈرا ہوا سا محسوس ہوا۔
اسے یہ شک نہ ہو کہ میں یہ معلومات کیوں لے رہی ہوں۔ میں نے کچھ خریداری کی اور اسی بازار میں دیگر دکانوں کو جائزہ لینے لگی۔ نہ تو مجھ سے کسی نے یہ پوچھا کہ تیزاب کیوں چاہیے اور نہ ہی وہاں کسی قسم کی کوئی معلومات لینے والا موجود تھا۔
قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
سپریم کورٹ کے وکیل شعیب اشرف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تیزاب گردی کی سزا 14 سال قید با مشقت ہے۔
شعیب اشرف نے کہا کہ تیزاب کی فروخت کے لیے قانون کے مطابق کوئی خاص لائسنس درکار نہیں ہوتا۔ البتہ ہر قسم کے کاروبار جس میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس میں میونسپل کارپوریشن لا میں ٹریڈ لائسنس لینا ہوتا ہے اور وہی چیزیں فروخت کی جا سکتی ہیں جس کا اجازت نامہ آپ کو جاری کیا گیا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک کوئی ایسا کیس ریکارڈ پر موجود نہیں جس میں تیزاب پھینکا گیا ہو اور جس شخص سے تیزاب خریدا گیا اس کو شاملِ تفتیش کیا گیا ہو یا اس کو کوئی سزا ہوئی ہو یہی وجہ ہے کہ واش روم کی نالی کھولنے کے لیے ہلکے اور انتہائی تیز تیزاب کھلے عام فروخت ہوتے ہیں۔
تیزاب گردی متعلق انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل منیزہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ عام طور پر ایسے مقدمات عدالتوں میں کم ہی پہنچتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں والدین کا یہ بھی سوچنا شامل ہے کہ اس میںان کی بیٹی یا بہن کی بدنامی ہو سکتی ہے۔
منیزہ کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ اس جرم میں کسی بھی طور پر صلح نہیں ہوسکتی۔ اکثر کیسز میں جرم کرنے والا اور دوسرے فریق سے دباؤ سے یا زور زبردستی سے صلح کرکے عدالت سے معافی حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن قانون کی نظر میں اسے معافی نہیں مل سکتی۔ ریاست اس کے خلاف فیصلہ برقرار رکھتے ہوئےاسے لازمی سزا دے گی۔
ان کے بقول اس جرم پر جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ اس جرم کو قتل سے بھی زیادہ خطرناک عمل قرار دیا۔ اس لیے اس کی کوئی معافی نہیں۔
’کئی کیسز دل دہلا دیتے ہیں‘
پلاسٹک سرجن ڈاکٹر سامعیہ تسلیم کہتی ہیں کہ تیزاب گردی کے یوں تو تمام کیسز ہی افسوس ناک ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے کیریئر کے دوران کچھ ایسے کیسز انہوں نے دیکھے جس نے شدید متاثر کیا۔
ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک خاتون جن کی گود میں دودھ پیتا بچہ تھا، ان پر ان کے شوہر نے تیزاب پھینک دیا تھا جس سے ماں اور بچہ دونوں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
’’اس واقعے پر میں سوچنے لگی تھی کہ ظلم کرنے کی اس حد تک جانے کی کسی کو کیا ضرورت ہے؟‘‘
ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح میرے پاس ایک خاتون آئیں جن پر انتہائی تیز نوعیت کا تیزاب ڈالا گیا تھا۔ سرجری کے وقت جب ان کی پٹیاں تبدیل کی جا رہی تھیں تو ان کے جسم کے کئی حصوں سے جلد پھسل رہی تھی اور ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں ماں اور بیٹی دونوں متاثر ہوئے تھے کیوں کہ بچے ماؤں کے ساتھ ہی ہوتے ہیںْ۔ تو وہ بھی خاندان کی لڑائیوں میں اکثر اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ ماں بیٹی دونوں کی دورانِ علاج موت ہو گئی تھی۔
اگر تیزاب گر جائے تو پہلے کیا کیا جائے؟
ڈاکٹروں کے مطابق جلنے کے کیسز کی کئی وجوہات ہیں۔ کچھ واقعات میں آگ کے سبب، گاڑی کی بیٹری پھٹنے سے یا حادثاتی طور پر بھی لوگ جھلس جاتے ہیں۔ ایسے حادثات میں جو تیزاب ہوتا ہے وہ زیادہ تیز نہیں ہوتا۔ لیکن تیزاب پھینکنے کے کیس میں زیادہ تر تیز کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جس میں چہرہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے یا آنکھیں ضائع ہو جاتی ہیں اور کانوں پر اثر پڑتاہے۔
تیزاب گردی سے متاثرہ لوگوں کے بارے میں ڈاکٹرو کہتے ہیں کہ ایسے افراد کی زندگی بھر سرجریاں چلتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی پر تیزاب گرا ہے تو 20 منٹ بہتے پانی (نل یا شاور) کا پانی متاثرہ حصے پر مستقل دور سے ڈالتے رہیں۔ کیوں کہ تیزاب محلل ہوتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پانی سے دھل کر پاؤں کو جلا دے۔ اس کے بعد مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا جائے۔
ڈاکٹر سامعیہ کے مطابق ایسے کیسز میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کئی ایسی خواتین جن پر شوہر یا سسرال کے کسی فرد نے تیزاب پھینکا تھا۔ وہ خاندانی دباؤ کے سبب کیسز واپس لے کر اسی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس عورت اور اس کے بچوں کو میکے یا حکومتی اداروں کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملتی جس کے باعث وہ ایسی درندگی کرنے والے ساتھ ہی اپنی باقی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ویسے تو کافی غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سارے امور پر کام نہیں ہو رہا۔ جیسے اس کا علاج ہر جگہ ہو سکتا ہے نہیں اور جہاں علاج دستیاب ہے وہ اتنا مہنگا ہے کہ ہر متاثرہ شخص کی استطاعت سے باہر ہے۔
ان کے بقول فلاحی اداروں میں 60 سے 70 فی صد علاج یعنی سرجری تو ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے جیسے ریہب پوزیشن، سائیکولوجسٹ ،آکیوپیشنل تھراپسٹ، فزیو تھراپسٹ۔ یہ سب مریض کی سرجری کے بعد جب وہ ڈسچارج ہو جائے تب لازمی درکار ہوتا ہے۔ ہمیں ان سب کی کمی کا سامنا ہے۔ خاص کر سندھ میں تو اس کی بہت زیادہ کمی نظر آتی ہے۔
ان کے بقول اس کے علاوہ بہت سے نشانات کے لیے لیزرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ بھی مفت نہیں ہو سکتی۔ سرجری مفت سرکاری اسپتالوں یا کچھ تنظیمیں نجی اسپتالوں میں بھی کرا دیتی ہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوپا رہا۔
تیزاب گردی کا شکار ہونے والی مسز خالدہ کے مطابق انسان کا چہرہ ہی سب کچھ ہوتا ہے جو اسے بگاڑ دے تو سوچیے اس کی درندگی کی حد کیا ہوگی۔
’’ہم نے اتنے برس اپنی بیٹی کے لیے بہت کچھ سنا اور سہا ہے۔ لیکن آج بھی جب وہ سات سمندر پار سے ویڈیو کال پر سامنے آئے تو دل کٹ سا جاتا ہے۔‘‘
فورم