حکومتِ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض کی قسط کی بحالی کے لیے معاملات طے پا گئے ہیں۔ حکام نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے معاشی ٹیم کے ہمراہ پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔
شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف نے 'ٹیکس ریفارمز' جاری رکھنے کا کہا ہے جب کہ وزیرِ توانائی حماد اظہر کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ بعد بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جولائی 2019 میں چھ ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر چھ ارب ڈالر ملنا تھے جن میں سے تقریباً دو ارب ڈالر مل چکے ہیں اور مزید ایک ارب سے زائد ڈالر ملیں گے۔
یہ پروگرام رواں سال جون سے رُکا ہوا تھا۔ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کو بعض شرائط پر عمل درآمد کا کہا تھا جس پر دونوں کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد فنڈ کی نئی قسط آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد جاری ہو گی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلی قسط جاری ہونے سے قبل حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبات کے تحت بجلی کی قیمت میں ایک روپیہ 68 پیسے فی یونٹ اضافہ اور روپے کی قدر میں تقریباً 10 فی صد تک مزید گراوٹ کرنا پڑی۔ انہی 'اصلاحات' کے تحت مرکزی بینک کو گزشتہ ہفتے شرح سود میں ڈیڑھ فی صد کے ناقابلِ یقین حد تک اضافہ بھی کرنا پڑا۔
آنے والے دنوں میں رواں سال کے ترقیاتی منصوبوں کا حجم 900 ارب روپے سے گھٹا کر 700 ارب روپے کیا جا رہا ہے۔ جب کہ بجلی کی قیمتوں میں آئندہ برس مزید اضافے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کی بحالی ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے جب گزشتہ ہفتے ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروس کارپوریشن آرڈیننس 2001' کا ترمیمی بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت اُن نقصانات کو کسی بھی قانونی کارروائی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو بورڈ کے کسی رکن کے کسی 'نیک نیتی' سے کیے گئے اقدام کی روشنی میں سرزد ہوئے ہوں۔
'آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے پر پاکستان کو قرضہ ملا'
تاہم ایک اور بل جس میں آئی ایم ایف کے مطالبے کے تحت پاکستان کے مرکزی بینک کو زیادہ خودمختاری تجویز کی گئی ہے، اسے ابھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں غیر معمولی تاخیر کو بھی معاشی ماہرین اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کے خیال میں آئی ایم ایف نے اس وقت تک قرضے کی اگلی قسط دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا جب تک اس حوالے سے عائد اکثر شرائط پوری نہیں کر دی گئیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے قرضے کی اگلی قسط کی منظوری سے قبل دسمبر میں ایک بار پھر شرح سود میں اضافے کا امکان ہے۔
معاشی امور کے ماہر اور سابق وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں آئی ایم ایف نے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کے لیے پاکستان کو کئی مشکل اقدامات کرنے کو کہا تھا۔ جس میں کرونا وبا کے دوران صنعتوں کو ری فنانسنگ کی سہولت کا مرحلہ وار خاتمہ، بجلی کی قیمت میں اضافہ، نجی بجلی گھروں سے بقایا جات کے معاملات کا حل، گردشی قرضے کم کرنے کے منصوبے، اینٹی منی لانڈرنگ پلان کا مکمل اطلاق اور نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنا شامل تھا۔
ادھر آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے علاوہ تقریباً تمام ہی نکات پر کسی حد تک عمل درآمد ممکن ہو سکا ہے۔
آئی ایم ایف نے توقع ظاہر کی ہے کہ ملکی معیشت میں رواں مالی سال کے اختتام پر چار فی صد کے لگ بھگ نمو رہے گی۔ تاہم مہنگائی کی شرح میں اضافہ برقرار رہنے کی توقع ہے۔ اسی طرح برآمدات بڑھنے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی توقع ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی ڈھانچے کے چیلنجز اب بھی برقرار ہیں اور معیشت کے لیے اندرونی و بیرونی خطرات بدستور موجود ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے ٹیکس کی بنیاد بڑھانے اور ٹیکس سے مختلف استثنیٰ ختم کرنا ضروری ہیں۔
حفیظ پاشا کے خیال میں آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے ایکشن پلان کے بعض نکات پر عمل درآمد کے باوجود یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا حکومت باقی معاملات پر بھی عمل میں کامیاب ہو پائے گی۔ جس میں سب سے اہم مرکزی بینک کی خودمختاری بڑھانے سے متعلق بل ہے۔
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو احتساب کے ملک میں نافذ معمول کے عمل کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے، حکومت کا عمل دخل مرکزی بینک کے معاملات میں نہ ہو اور حکومت کو مرکزی بینک سے براہِ راست قرضہ لینے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم اس پر معاشی ماہرین، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید مخالفت کی جا چکی ہے اور یہ بل اب تک ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔
'آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال نہ ہوتا تو روپے کی قدر میں مزید گراوٹ ہوتی'
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے کی صورت میں حکومت پیٹرول کی عالمی مارکیٹ میں کم ہونے والی قیمتوں کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کرے گی اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے پیٹرولیم لیوی سے 250 ارب روپے اکھٹا کرنا چاہے گی۔
حفیظ پاشا کہتے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی صورت میں روپے کی قدر میں کمی ساڑھے بارہ فی صد تک رہنے کی توقع ہے اور اگر یہ معاہدہ بحال نہ ہوتا تو روپے کی قدر 20 فی صد سے زائد تک گر سکتی تھی۔
ایک اور معاشی ماہر فہد رؤف کے خیال میں پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں توقع کے تحت دوبارہ آ گیا ہے اور مزید ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالرز ملنے سے اب تک پروگرام کے تحت 50 فی صد رقم مل جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کی بحالی کے بعد روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ رک جائے گا۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا، جب کہ بیرونی قرضوں اور فنانسنگ قدرے آسان ہو سکے گی۔ تاہم شرح سود میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔