رسائی کے لنکس

ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہونے سے قبل شرائط پر آئی ایم ایف سے بات چیت جاری


بین الاقوامی مالیاتی فنڈ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ

تجزیہ کاروں کے خیال میں،پاکستان کی کمزور معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی صرف عام آدمی ہی کے لئے مشکلات کا سبب نہیں بن رہی ہے، بلکہ ایسے میں جب آئندہ انتخابات بھی بہت زیادہ دور نہیں ہیں خود حکومت کے لئے بھی مسائل پیدا کر سکتی ہیں

اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، پاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کا چھ بلین ڈالر کا مجموعی پیکیج طے ہوا تھا، جس میں سے کچھ حصہ مل چکا ہے۔ ہر چھ ماہ بعد ایک قسط ملتی ہے اور اب پچھلی اور جاری مدت کی قسطیں ملا کر ایک ارب ڈالر کی قسط کے لئے بات چیت ہو رہی ہے۔

طے یہ ہوا تھا کہ ہر قسط کے بعد جب اگلی قسط کا وقت آئے گا تو آئی ایم ایف صورت حال کا جائزہ لے گا کہ شرائط پر کس حد تک عمل ہوا ہے اور اسی کی روشنی میں اگلی قسط کے بارے میں فیصلہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس بار کی ایک ارب ڈالر کی قسط کے لئے، جو پائپ لائن میں ہے، کچھ ایسی شرائط رکھی گئی ہیں جن پر مذاکرات چل رہے ہیں۔ اور پاکستان یہ بھی غور کر رہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کی صورت میں اس نے قسط دینے سے انکار کر دیا تو پاکستان اس کا متبادل کہاں سے حاصل کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ اس بار جو شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حکومت ہاکستان کے مختلف محکموں کے جو بنک اکاونٹ مختلف بنکوں میں ہوتے ہیں وہ ہر محکمے کا الگ اکاونٹ نہ ہو بلکہ حکومت کا ایک ہی اکاونٹ ہو۔ محکمے الگ الگ اکاؤنٹ نہ کھولیں حکومت کا سنگل بنک اکاؤنٹ ہو، محکموں کے ذیلی اکاؤنٹ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت پاکستان کو یہ شرط قبول کرنی چاہئے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان شرائط کے سبب ملک میں مزید مہنگائی ہو گی، انہوں نے کہا کہ عام طور سے یہ شرائط مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ اس بار بھی آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ حکومت جو رعایتیں یا سبسڈی دیتی ہے وہ ختم کر دے۔ اگر وہ شرط منظور کی گئی تو یقیناً مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ خاص طور سے زرعی اشیاء پر دی جانے والی رعایتیں ختم کرنے سے افراط زر میں بھی اضافہ ہو گا اور قیمتیں بھی بڑھیں گی۔

انہون نے بتایا کہ افغانستان کی معاشی صورت حال خاص طور پر وہاں کے لوگوں کی جانب سے پاکستان کی کھلی منڈی سے ڈالر کی خریداری بھی پاکستان کی معیشت پر مُنفی اثر ڈال رہی ہے۔

عالمی سیاست اور ملکی معیشت اور اسکے لئے آئی ایم ایف کے قرضوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں ہر ملک کا ووٹنگ کا حق فنڈ میں لگے ہوئے اس کے سرمائے کی مناسبت سے ہوتا ہے اور یوں اس وقت کوئی چالیس فیصد سے زیادہ امریکہ اور یورپی ملکوں کا ووٹنگ کا حق بن جاتا ہے۔ اور جب کسی ملک کی ان سے سیاسی ہم آہنگی نہیں ہوتی تو اسکا سیاسی اثر بھی آتا ہے اور آئی ایم ایف پر بھی اسکا دباؤ آتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ، ڈاکٹر سلمان شاہ اس وقت حکومت پنجاب سے منسلک ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی صورت میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف چاہتی ہے کہ اضافے کی شرح سست ہو، تاکہ توازن ادائیگی درست ہو سکے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کے مہنگائی کو قابو میں لایا جائے اور معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ لیکن، اس سب کا انحصار آنے والے دنوں پر ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کہاں سے کیا حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں، اگر درست سمت میں سفر جاری رکھا جائے تو کامیابی نا ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش پاکستان کے ایک ممتاز سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست پر معیشت کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہر چند کہ اپوزیشن ملک کی معاشی صورت حال کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لئے کوشاں ہے، لیکن حکومت بھی معاشی صورت حال کو اچھا بنا کر پیش کرنےکی کوشش کر رہی ہے اور یہ باور کرا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے معاملات طے ہو جائیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ عام آدمی کا تاثر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عام آدمی اسوقت الجھن کا شکار ہے۔ اس کو اپنے مسائل کا حل چاہئے اور وہ طے نہیں کر پا رہا کہ اسکے مسائل کون حل کر سکتا ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صورت حال زیادہ دیر ایسی نہیں رہے گی۔ جس کے بعد اگر یہ تبدیل نہ ہوئی تو اگلا مرحلہ آئے گا، جو شاید اتنا خوشگوار نہ ہو۔

XS
SM
MD
LG