حکومتِ پاکستان نے قرض کے حصول کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت دوبارہ شروع کر دی ہے۔ امریکہ کے شہر واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کا فی الحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے البتہ حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ بات چیت 'مثبت سمت' گامزن ہے۔
حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا گیا جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرضے کی اگلی قسط ملنا ہے۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کس جانب جارہے ہیں؟ اس کے بعض اشارے ملک کے اندر ضرور دیکھے جا رہے ہیں۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں سے پیدا شدہ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 15 اکتوبر کو ملک بھر میں بجلی کی بنیادی قیمت میں ایک روپے 39 پیسے کا اضافہ کر دیا ہے جس کا اطلاق نومبر سے ہوگا اور اس سے حکومت کو 140 ارب روپے کی اضافی آمدنی کی توقع ہے۔
اسی طرح پاکستان میں پائپ لائن کے ذریعے نئے گیس کنکشنز کے حصول پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہی نہیں پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
حکومت نے رواں ماہ دوسری مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور پیٹرول کی قیمت 10 روپے 49 پیسے کے اضافے سے نئی قیمت 137 روپے 79 پیسے ہو گئی ہے۔
ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں زیادہ ہونے کے اثرات ملک میں ہر شعبے میں واضح طور پر نظر آتے ہیں جب کہ عالمی سطح پر شپنگ کی قیمتیں بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے اور دیگر اجناس جیسے کوئلہ، اسٹیل، گیس اور غذائی اشیا کی بھی قیمتیں بڑھنے کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس ہو رہے ہیں اور ملک میں مہنگائی کی موجودہ لہر اسی کا نتیجہ ہے۔
لیکن ماہرین معاشیات حکومت کی اس دلیل سے مکمل اتفاق کرتے نظر نہیں آتے۔ حبیب یونیورسٹی کراچی میں معاشیات کے استاد اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کی موجود لہر کی بعض بین الاقوامی وجوہات بھی ہیں لیکن اس کی مقامی وجوہات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ان کے بقول موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آںے تک حکومت نے کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کی لیکن پھر معیشت میں اخراجات کی رفتار کو تیزی سے بڑھایا۔ بیرونی عوامل کی موجودگی میں اگر اندرونی طور پر معاشی پالیسی کو بہتر رکھا جاتا تو اس کے اثرات سے کسی حد تک بچا جاسکتا تھا۔
'حکومت نے اپنے اخراجات بڑھا لیے ہیں'
سابق وزیرِ خزانہ اور بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر حفیظ پاشا کا بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قیمتیں بڑھنے کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں لیکن مالی سال 2019-20 اور پھر 2020-21 میں اندرونی مسائل کی وجہ سے بھی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے خیال میں جب 'منی سپلائی' میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے تو قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور صرف ایک سال 19-2018 میں ملک میں روپے کی گردش میں 19 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پیسے کی گردش میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات اس قدر بڑھا لیے ہیں کہ اس کا بجٹ خسارہ کئی گنا بڑھ چکا ہے اور حکومت کو اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے قومی سطح پر بھی قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول قرضے لینے کی صورت میں نئے نوٹ چھاپے جاتے ہیں اور یوں پیسوں کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں اضافہ نظر آرہا ہے۔
ڈاکٹر اقدس کا کہنا ہے پاکستان کے ترسیلاتِ زر عام طور پر 18 سے 20 ارب ڈالر تک رہتے تھے لیکن گزشتہ برس یہ بڑھ کر 29 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے تھے جو انتہائی خوش آئند تھا لیکن معاشی پالیسی سازوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ اگر 30 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر آ رہی ہیں تو پھر اس کی خریداری بھی تو ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافے کے بعد امپورٹ کنٹرول لگانے کی ضرورت تھی تاکہ یہ سرمایہ کم سے کم باہر جائے اور آج ہم اس قسم کے تجارتی خسارے کا سامنا نہ کر رہے ہوتے جس سے ملک کی کرنسی کا شرح تبادلہ اس قدر گر جاتا۔
ڈاکٹر اقدس افضل کا خیال ہے کہ حکومت مہنگائی کی روک تھام کے لیے اب بھی کئی اقدامات کرسکتی ہے۔ ان کے بقول غذائی اشیا کی سپلائی چین میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع خور مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کر کے زیادہ منافع کماتے ہیں اور یہاں پر حکومت کا کردار آتا ہے جس کا کام ہے کہ وہ ایسے انتظامی اقدامات کرے جس سے ان اجارہ داریوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں 'کارٹلائزیشن' اور زخیرہ اندوزی کی وجہ سے قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا بڑا دار و مدار زراعت پر ہونے کے باوجود بھی پاکستان کئی غذائی اشیا درآمد کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں اور یوں باہر سے مہنگی اشیا پاکستان پہنچتی ہیں جو یہاں مہنگائی میں اضافے کی ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھاد کی قیمت گزشتہ آٹھ دس برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہیں جب کہ پچھلے 20 سالوں سے حکومت کا رجحان زرعی شعبے سے ہٹ کر صنعتی اور توانائی کے شعبے کی جانب رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھنے بلکہ بے قابو ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو شرح سود بڑھانے کی ضرورت پڑے گی تاکہ پیسے کی زیادہ گردش کو روکا جاسکے۔
بھارت، بنگلہ دیش بھی تو تیل خریدتے ہیں وہاں مہنگائی پاکستان سے کم کیوں؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور خطے کے دیگر ممالک میں مہنگائی کی رفتار چار سے پانچ فی صد کے درمیان ہے جب کہ پاکستان میں یہ نو فی صد ہے اور اس فرق کی وجہ اندرونی عوامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور یہ قیمتوں میں اضافے کی بھی وجہ ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت، بنگلہ دیش کی کرنسیاں کافی مستحکم ہیں اور ان ممالک کے بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر پاکستان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جب کہ بنگلہ دیش کے پاس 44 ارب ڈالر اور بھارت کے پاس 600 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر ہیں۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو کیا کرنا ہوگا؟
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 9 فی صد ہے لیکن ان کی اپنی تحقیق کے مطابق یہ تقریباً 11 سے 12 فی صد کے قریب ہے۔
ان کے بقول بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی شرح 14 فی صد کے لگ بھگ ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا، دوسری جانب ترقیاتی بجٹ کم کرنے کے ساتھ اخراجات کی رفتار گھٹانا ہوگی۔ شرح سود بڑھانا پڑے گی، کرنسی کو مزید گھٹانا پڑے گا، جب کہ غیر ضروری درآمدات پر مزید اضافی ڈیوٹیز عائد کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ وسائل بڑھانے سے متعلق آئی ایم ایف کی سخت شرائط نہ ماننے کی صورت میں بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آسکتی ہے اور اس سے ملک میں مزید مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔
ڈاکٹر اقدس کا خیال ہے کہ غریب طبقہ اس مہنگائی سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اس سے نمٹنے کے لیے غریب ترین طبقے کو براہِ راست سبسڈیز دینے اور احساس پروگرام کے تحت ان کی مالی معاونت بڑھانے کی ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر غریب طبقے کا خیال نہ کیا گیا تو کئی اور معاشی مسائل ہیدا ہو سکتے ہیں جس سے بالواسطہ طور پر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور یہ معیشت کو مزید پیچھے کی جانب دھکیلتی ہیں۔