پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کا میلہ 20 فروری کو شروع ہونے والا ہے جس میں شرکت کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں سے کھلاڑی کراچی پہنچ گئے ہیں۔
ایونٹ میں چھ ٹیمیں مدِ مقابل ہوں گی۔ کراچی کنگز اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا جب کہ لاہور قلندرز کی ٹیم گزشتہ سال فائنل میں شکست کے بعد نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
باقی چار ٹیمیں بھی ایونٹ کے فائنل راؤنڈ میں پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں۔ لیکن کون سی ٹیم فائنل میں جگہ بنا پائے گی اور ایونٹ اپنے نام کرے گی اس کے لیے ٹیموں میں شامل اسٹار بلے بازوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
1۔ کراچی کنگز
پی ایس ایل کے پانچویں ایڈیشن کی فاتح ٹیم کراچی کنگز نے لیگ کے ابتدائی چار سیزن میں مقابلہ تو خوب کیا۔ لیکن ان کی کارکردگی واجبی سی رہی۔
لیکن پانچویں سیزن میں اس ٹیم نے نہ صرف شاندار کھیل پیش کیا بلکہ ڈین جونر کی زیر نگرانی ایونٹ کے فائنل راؤنڈ میں بھی جگہ بنائی۔ ٹیم کے کوچ ڈین جونز کی آف سیزن اچانک موت واقع ہوئی اور وسیم اکرم کو اُن کی جگہ ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی۔
کراچی کنگز کے پاس بابر اعظم اور محمد عامر جیسے ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ موجود ہیں جب کہ اس ٹیم میں نوجوان دانش عزیز کی شمولیت سے ایک بات تو طے ہے، اگر کہیں کوئی میچ پھنسا تو وہ ٹیم کو جیت تک کا سفر طے کرانے کا گر جانتے ہیں۔
کنگز کے پاس عماد وسیم بھی موجود ہیں جو ٹیم کی قیادت کے علاوہ کسی بھی وقت اپنی بالنگ یا بیٹنگ کی وجہ سے میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
2۔ لاہور قلندرز
لاہور قلندرز کی قیادت سہیل اختر کر رہے ہیں جن کا شمار نہ بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی بالرز میں۔ لیکن اپنے کھلاڑیوں کو کیسے استعمال کرنا ہے، یہ ہنر اُنہیں آتا ہے۔
کھلاڑیوں کو متحد رکھ کر کھلانے کے گر کی وجہ سے گزشتہ سیزن میں ان کی ٹیم نے پہلی بار فائنل راؤنڈ میں جگہ بنائی تھی۔
اس بار لاہور قلندرز کی ٹیم میں افغان اسپنر راشد خان شامل ہوں گے۔ جن کا شمار دورِ حاضر کے بہترین لیگ اسپنرز میں ہوتا ہے۔ اسپن ڈپارٹمنٹ میں ان کا ساتھ دیں گے سمت پٹیل اور محمد حفیظ، جو آل راؤنڈرز ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹنرشپ بریکرز کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
اگر محمد حفیظ کا بیٹ چل گیا، تو اسے روکنے کے لیے مخالف ٹیم کو سخت محنت کرنا پڑے گی، اس وقت 40 سالہ کھلاڑی اپنی زندگی کے بہترین فارم میں ہیں اور اپنی کارکردگی سے لاہور کو ٹرافی جتوانے کے لیے پر عزم بھی ہیں۔
قلندرز کے پاس شاہین شاہ آفریدی، دلبر حسین اور حارث رؤف جیسے پیسرز بھی ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ سیزن میں بالترتیب 17، 14 اور 10 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیجا تھا۔
اگر وکٹ کے پیچھے نوجوان وکٹ کیپر ذیشان اشرف نے اپنا کمال دکھایا تو لاہور قلندرز کو ٹائٹل جیتنے سے روکنا مشکل ہو سکتا ہے۔
3۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
اگر لاہور کے پاس محمد حفیظ ہیں تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پاس ان کے توڑ کے لیے ڈیل اسٹین موجود ہیں۔ 37 سالہ فاسٹ بالر کی کوشش ہوگی کہ اپنے مداحوں کو مایوس نہ کریں۔
سرفراز احمد کے پاس بھی یہی موقع ہے اپنی فٹنس، فارم اور قیادت ثابت کرنے کا اور اگر وہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں کم بیک چاہتے ہیں تو انہیں تینوں شعبوں میں اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی۔
اس بار کوئٹہ کے پاس کچھ میچز کے لیے ویسٹ انڈین کرکٹر کرس گیل بھی ہوں گے۔ اگر اُن کے بیٹ نے رنز اگلنا شروع کیے تو پھر دوسری ٹیموں کا اللہ ہی حافظ۔
کوچ معین خان کے صاحبزادے اور نوجوان پاور ہٹر اعظم خان بھی اس سال ایک الگ موڈ میں ہوں گے۔ گزشتہ سیزن میں انہیں کسی نے سفارشی کہا، کسی نے پرچی لیکن ٹی ٹین لیگ میں بالرز کا جینا دوبھر کرنے والا یہ نوجوان اب ٹی ٹوئنٹی میں بھی اپنے بلے سے سب کو خاموش کرنے کے موڈ میں ہے۔
تین مرتبہ ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنانے والی ٹیم کوئٹہ اس بار واپس پرانی فارم میں نظر آنے کی کوشش کرے گی تاکہ مداح اور شائقین مایوس نہ ہوں۔
جیسن روئے اور شین واٹسن کی غیر موجودگی میں نوجوان بلے بازوں کو ذمہ داری لینا ہو گی، باقی وکٹیں لینے کے لیے فاسٹ بالر محمد حسنین ہیں ناں!
4۔ اسلام آباد یونائیٹڈ
پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں اگر کوئی ٹیم دو مرتبہ ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے تو وہ ہے اسلام آباد یونائیٹڈ۔
جب جب اسلام آباد کی ٹیم فائنل میں پہنچی، تب تب جیتی ہے۔ لیکن پہلے اور تیسرے ایڈیشن میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم کے پاس نہ اس بار کوچ مصباح الحق ہوں گے اور نہ ہی پہلے چار ایونٹس میں 42 وکٹیں لینے والے محمد سمیع۔
شاداب خان کی کپتانی میں پچھلے سیزن میں ٹیم کا آخری نمبر آیا تھا جس کے بعد ٹیم مینیجمنٹ میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جس میں سے ایک پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کو الوداع کہنا بھی شامل تھا۔
لیکن ایونٹ میں اب تک 46 اور 37 وکٹیں لینے والے فہیم اشرف اور شاداب خان اس یونائیٹڈ ٹیم کا حصہ ہیں۔
اس بار نئے کوچ یوہان بوتھا کی زیرِ نگرانی ان دونوں کھلاڑیوں کی طرح پورا اسکواڈ اچھی کارکردگی کا خواہش مند ہے۔
رومان رئیس انجری کی وجہ سے اس سال بالنگ کنسلٹنٹ ہوں گے جب کہ کیوی وکٹ کیپر لیوک رونکی کی جگہ اس بار نوجوان وکٹ کیپر روحیل نذیر وکٹ کے پیچھے نظر آئیں گے۔ محمد وسیم جونیئر، موسیٰ خان، حسن علی، فواد احمد اور افتخار احمد ٹیم کے باولنگ سکواڈ کا حصہ ہیں۔
ایلکس ہیلز کی موجودگی میں ویسے تو اسلام آباد کی ٹیم کو پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر وہ نہ چلے اور ان کی ٹیم کے نوجوان وکٹ کیپر ڈٹ گئے، تو دوسری ٹیم دعا کرے گی کہ اگلی بار ہیلز کو بیٹنگ کرنے دی جائے اور ٹارگٹ روحیل نذیر کو کیا جائے!
5۔ پشاور زلمی
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرح پشاور زلمی کی ٹیم بھی پاکستان سپر لیگ کے تین فائنلز کھیل چکی ہے. لیکن صرف ایک مرتبہ ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
اس بار ان کی ٹیم میں قومی ٹیم کے لیے کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے فاسٹ بالر محمد عرفان کی شمولیت سے کپتان وہاب ریاض کو سپورٹ ملے گی۔ جو اکیلے ہی اپنے بالنگ اٹیک کے اسٹار ہیں۔
وہاب ریاض اب تک 55 میچز میں 76 وکٹیں لے کر پی ایس ایل کی تاریخ کے سب سے کامیاب بالر ہیں۔ محمد عرفان نے 41 میچز میں 33 وکٹیں تو حاصل کی ہیں، لیکن ان کی فارم بدستور نیچے کی طرف جا رہی ہے۔
افغان اسپنر مجیب الرحمان کی آمد سے اسپن کا شعبہ مضبوط ہو گا جب کہ انگلش پیسر ثاقب محمود اپنی شمولیت کو درست فیصلہ ثابت کرنے کے لیے مزید بہتر بالنگ کرنے کے خواہش مند ہوں گے۔
انٹرنیشنل کھلاڑی کامران اکمل اور شعیب ملک کی موجودگی میں پشاور کے پاس تجربہ بھی ہے اور مہارت بھی۔ گزشتہ سیزن میں دونوں کھلاڑیوں نے ٹیم کے 1442 رنز میں سے 529 اسکور کیے تھے۔ ان دونوں کی موجودگی میں اس بار حیدر علی کو بھی اپنا ٹیلنٹ بھرپور انداز میں دکھانا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی اسی طرح بیٹنگ کرسکتے ہیں۔
کراچی کنگز کے سابق کپتان روی بوپارا اس سیزن میں پشاور کا حصہ ہوں گے، وہ اس وقت شاندار فارم میں ہیں اور ان کا ساتھ دوسرے لیگ میں جنوبی افریقہ کے ڈیوڈ ملر دیں گے، جنہوں نے حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستانی بالرز کی خوب دھلائی کی تھی۔
امکان ہے کہ اس بار کامران اکمل صرف ایک بیٹسمین کے طور پر کھیلیں گے جب کہ امام الحق وکٹ کیپنگ کریں گے، دیکھتے ہیں یہ فیصلہ ٹیم کی کامیابی میں مدد کرتا ہے یا پھر ناکامی میں!
6۔ ملتان سلطانز
پاکستان سپر لیگ کی بے بی ٹیم نے اب تک صرف تین ایڈیشنز میں شرکت کی ہے۔ لیکن شان مسعود کی کپتانی میں پی ایس ایل فائیو میں ملتان نے تیسری پوزیشن حاصل کر کے سب کو حیران کیا۔
ٹیم مینجمنٹ نے چھٹے ایڈیشن سے پہلے شان مسعود کو قیادت سے ہٹا کر پاکستان کرکٹ کے سپرمین محمد رضوان کو نیا کپتان نامزد کر دیا ہے۔
پی ایس ایل کا تجربہ رضوان کے لیے نیا ہو گا کیوں کہ گزشتہ پانچ سیزن انہوں نے کراچی کنگز کے ساتھ گزارے اور پانچویں سیزن میں صرف دو میچز ہی کھیل سکے۔
گزشتہ دو برسوں میں رضوان کی انٹرنیشنل ٹیم کے ساتھ کارکردگی دیکھ کر ملتان نے نہ صرف انہیں کراچی سے چھین لیا بلکہ اُنہیں کپتانی کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔
گزشتہ سیزن میں ملتان ہی کے خلاف سنچری اسکور کرنے والے کرس لین اس بار محمد رضوان کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ آسٹریلوی کھلاڑی کی آمد سے ملتان کی بیٹنگ مضبوط ہوگی جو گزشتہ سیزن رائیلی روسو اور شان مسعود کے گرد ہی گھوم رہی تھی۔
شاہد آفریدی کی بیٹنگ تو اس معیار کی نہیں رہی، لیکن ان کی بالنگ آج بھی بلے بازوں کو پریشان کرتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاہد آفریدی اور عمران طاہر کی موجودگی میں ملتان کی ٹیم ان فارم عثمان قادر کو کیسے فائنل الیون میں شامل کرتی ہے۔
پچاس وکٹوں کے سنگ میل سے صرف دو قدم دور سہیل تنویر بدستور ٹیم کے مین بالر ہوں گے جب کہ ان کا ساتھ دیں گے سہیل خان اور عمران خان سینئیر جو پاکستان کرکٹ ٹیم میں واپس آنے کے لیے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے۔