بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق عسکریت پسندوں کے ساتھ بیاہی گئی پاکستانی خواتین نے جو سفری دستاویزات کی عدم موجودگی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سفر نہیں کرسکتیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ ان کا مسئلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کیا جائے۔
مطالبات منوانے کے لیے مسلسل 10 سال سے جاری جدوجہد میں بظاہر ناکامی کے بعد ان پاکستانی خواتین میں سے کئی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دے کر ملک بدر کیا جائے۔
انہوں نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ان کا یہ مطالبہ فوری طور پر پورا نہیں کیا جاتا تو وہ مجبوراً کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی جانب مارچ کریں گی۔
43 سالہ سائرہ جاوید نے جو کراچی میں پلی بڑھیں کہا کہ "لگتا نہیں ہے کہ ہمارے لیے اور کوئی راستہ بچا ہے۔ ہم گزشتہ آٹھ دس سال سے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ ہم اربابِ اقتدار سے ملیں۔ بارہا میڈیا کے ذریعے اپنی مشکلات اور مصائب سے دنیا کو آگاہ کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔"
لیکن پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی ان تقریباً 375 خواتین کی اکثریت اب بھی چاہتی ہے کہ انہیں جموں و کشمیر کا شہری قرار دیے کر سفری دستاویز جاری کی جائیں تاکہ وہ پاکستان جا کر اپنے والدین اور دوسرے رشتے داروں سے مل سکیں۔
مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی صومیہ صدف نے کہا کہ سفری دستاویز حاصل کرنا ہمار ا حق ہے۔ پتا نہیں ہم سے یہ حق کیوں چھینا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کس سمت جا رہے ہیں اس سے سب واقف ہیں۔ ہم اور ہمارے بچے بھی اس میں پستے جا رہے ہیں۔"
صومیہ صدف کا کہنا تھا کہ "کئی خواتین کے والدین اور قریبی رشتے دار اس عرصے کے دوراں پاکستان میں انتقال کر گئے۔ کئی کے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے عزیز و اقارب کی شادیاں ہوئیں۔ ہم ان کی غمی، خوشی کے مواقع پر ان سے ملنے سے محروم ہیں۔"
اُن کے بقول "ہم چاہتی ہیں کہ ہمیں سفری دستاویزات جاری کی جائیں تاکہ ہمارا دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنا ممکن بن جائے۔ ہم نہیں چاہتیں ہمیں ملک بدر کیا جائے۔ ہم اپنے شوہروں اور بچوں کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتیں۔ یہ کوئی کھیل نہیں۔ ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔"
یہ خواتین 2010 میں بھارتی حکومت کی طرف سے اُن مقامی نوجوانوں کی وطن واپسی اور آباد کاری کے لیے اعلان کردہ ایک منفرد پالیسی کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر پہنچی تھیں جو 1990 کی دہائی میں عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گئے تھے اور پھر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر یا اُس سے آگے چلے گئے تھے اور وہاں شادیاں کیں اور گھر بسا لیے۔
عہدے داروں کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے 1082 افراد نے آباد کاری پالیسی کے تحت گھر لوٹنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ حکومت کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد ان میں سے پونے چار سو کے قریب افراد اور ان کے کنبے 2010 اور 2012 کے درمیان نیپال کے راستے بھارتی کشمیر پہنچے تھے۔
ان خواتین میں سے کئی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ ایک خاتون نے کچھ عرصہ پہلے خود کُشی کر لی اور ایک اور کو طلاق ہو گئی تھی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم نے ان خواتین کو انصاف دلانے کے لیے تقریباً دو سال پہلے ریاستی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے حکومت کا نکتۂ نظر جاننے کے لیے اسے نوٹس جاری کر دیا تھا۔ لیکن اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد عدالت میں اس کیس کی مزید شنوائی نہیں ہو سکی۔
درخواست گزاروں کو امید ہے کہ عدالت اس انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈ نکالے گی۔
حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت کی وزارتِ داخلہ کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس بارے میں فیصلہ کرنا بھارت کی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے کیوں کہ پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر سے سابق عسکریت پسندوں کی واپسی اور جموں و کشمیر میں ان کی آباد کاری کی پالیسی کا اعلان اس کی منظوری حاصل کرنے کے بعد ہی کیا گیا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے ان خواتین کے لیے اُس وقت اُمید کی ایک کرن پیدا ہو گئی تھی جب بھارتی کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد تاج کے ساتھ شادی کرنے والی ایک پاکستانی خاتون خدیجہ پروین کو بھارتی وزارتِ داخلہ کی منظوری کے بعد بھارتی شہریت دی گئی۔
ضلع کے ڈپٹی کمشنر راہول یادو نے بتایا تھا کہ خدیجہ پروین کو بھارتی شہریت سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 5 (1) (سی) کے تحت دی گئی کیوں کہ انہوں نے ایک بھارتی شہری سے شادی کی ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے خدیجہ پروین کو سرٹیفیکیٹ آف رجسٹریشن اپنے دفتر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران ایک ایسے موقع پر دیا تھا جب بھارت بھر میں متنازع شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔
بعض قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ خدیجہ پروین کو بھارتی شہریت دینے کے حکومت کے فیصلے کو بھارتی کشمیر میں ایک مشکل صورتِ حال میں گھری پاکستانی خواتین کے اس مطالبے کو منوانے کے لیے بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ انہیں مقامی شہری تسلیم کیا جائے۔
واضح رہے کہ بھارتی کشمیر کا اپنا شہریت قانون تھا جو بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور اس کی ذیلی دفعہ۔ 35 اے کی منسوخی کے بعد نہیں رہا۔ بھارتی حکومت نے اگست 2019 میں اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خودمختاری کو ختم کر کے ریاست کو براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔
اس کے نو ماہ بعد جموں اور وادیٴ کشمیر کے لیے جو اب یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتے ہیں ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا جس نے سابقہ ریاست میں جس میں لداخ کا خطہ بھی شامل تھا 1928 سے لاگو 'اسٹیٹ سبجیکٹ لا" کی جگہ لے لی۔
اسٹیٹ سبجیکٹ لا کے تحت جموں و کشمیر کے صرف پشتنی یا حقیقی باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیدار خرید اور بیچ سکتے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرسکتے تھے۔ اس قانون کے تحت ریاست کے مستقل باشندوں کو ایک خصوصی دستاویز جاری کی جاتی تھی جو 'اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفیکیٹ ' کہلاتی تھی۔
دفعہ 35۔اے کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون سازوں کو حاصل تھا۔
ماہرینِ قانون کہتے ہیں کہ نئے قانونِ اقامت کو بھی یہاں پھنسی پاکستانی خواتین کو جموں و کشمیر کی شہریت دلانے کے لیے بنیاد بنایا جاسکتا ہے حالاں کہ ان خواتین کی اکژیت پاکستانی کشمیر کی حقیقی باشندہ ہونے کی حیثیت سے پہلے ہی قانوناً جموں و کشمیر کی شہری ہیں۔