رسائی کے لنکس

سال 2020: بھارت میں کرونا کی تباہ کاریاں، فسادات، احتجاج اور تنازعات


سال 2020 دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھارت کے لیے بھی نہایت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ سال کا آغاز اور اختتام، دونوں احتجاجی مظاہروں سے ہوا۔ تاہم سال بھر فسادات، احتجاج اور مظاہروں کی گونج رہی۔

گزشتہ سال دسمبر میں شہریت کا ترمیمی قانون (سی اے اے) منظور ہوا جس کے ساتھ ہی 13 دسمبر 2019 سے اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جو 2020 کے آغاز میں زور پکڑتا گیا اور پورے ملک میں اس کا دائرہ وسیع ہو گیا۔

اس دوران جنوبی دہلی کی مسلم اکثریتی کالونی شاہین باغ میں ہونے والا خواتین کا دھرنا شہ سرخیوں میں چھایا رہا۔ دھرنے کے دوران خواتین نے جگہ جگہ احتجاج کیا اور پرزور انداز میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کی تاہم درمیان میں کرونا وائرس آ گیا۔ اگر یہ وبا نہ پھیلتی تو ان دھرنوں کا جلد ختم ہونا مشکل تھا۔

پانچ جنوری کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایک ہوسٹل پر نقاب پوش افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں طلبہ اور اساتذہ سمیت کم از کم 40 افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں طلبہ یونین کی صدر آئیشی گھوش بھی شامل تھیں۔

رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طلبہ شاخ 'اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد' کے کارکن شامل تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک سال بیت گیا مگر حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

فروری میں دہلی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ آٹھ فروری کو ووٹ ڈالے گئے اور 11 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوئی جس میں ایک بار پھر حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملی اور اروند کیجری وال ایک بار پھر وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) مخالف مظاہروں کے دوران شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے مقامی رہنماؤں پر الزامات عائد کیے گئے۔ 23 فروری سے 29 فروری تک تشدد برپا رہا جس میں 53 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک شدگان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ متعدد مساجد اور درگاہوں و مزارات کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بعد ازاں پولیس نے سیکڑوں ایف آئی آر درج کیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیے۔

اقلیتی کمیشن نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد بی جے پی کارکنوں اور دہلی پولیس کو موردِ الزام ٹھیرایا۔ اس پر مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا بھی الزام لگایا گیا۔

پولیس اپنے اوپر عائد تمام الزامات کی تردید کرتی رہی۔ بی جے پی کارکن بھی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 24 اور 25 فروری کو بھارت کا دورہ کیا۔ انہوں نے پہلے روز نمستے ٹرمپ پروگرام کے تحت احمد آباد کے ایک اسٹیڈیم میں تقریباً ایک لاکھ افراد سے خطاب کیا۔

وزیرِ اعظم مودی نے بھی خطاب کیا۔ ٹرمپ کے ہمراہ ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور داماد جیرڈ کشنر بھی تھے۔

اسی درمیان ملک میں کرونا کی وبا نے اپنے پاؤں پھیلائے۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلا کیس نومبر میں ہی سامنے آگیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ کرونا کی وبا پھیلتی چلی گئی اور بڑی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہو تے چلے گئے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 22 مارچ کو ایک روزہ بھارت بند یا خود اختیار کرفیو کا اعلان کیا۔ اس روز پورا ملک بند رہا۔ انہوں نے 24 مارچ کی شب 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور کہا کہ جو جہاں ہے وہیں رہے۔ کسی کو کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر انتہائی سختی کے ساتھ عمل کیا گیا۔

لیکن جب یومیہ مزدور بے روزگار ہو گئے تو وہ آبائی علاقوں میں جانے کے لیے نکل پڑے۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر پیدل چلتے رہے یا پھر جس کو جو سواری ملی اسی سے وہ روانہ ہو گیا۔ بہت سے لوگو ں کو کئی کئی دنوں تک کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ اس دوران متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے۔ کچھ ٹرین حادثوں میں مارے گئے تو کچھ سڑک حادثوں میں اور کچھ بھوک سے مر گئے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے ملک کی صنعتیں اور تجارتی سرگرمیاں بند ہو گئیں جس کی وجہ سے معیشت پر بہت برا اثر پڑا۔ اس کے اثرات اب بھی ہیں اور معیشت کو سنبھالنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

حکومت نے معیشت کی گاڑی کو پٹری پر لانے کے لیے 20 لاکھ کھربوں روپے کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا۔ لاک ڈاؤن کی مدت میں کئی بار توسیع بھی کی گئی۔

اسی دوران نئی دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں منعقد ہونے والے ایک اجتماع میں شرکت کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک سے ہزاروں افراد آئے ہوئے تھے۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کی وجہ سے وہ سب پھنس گئے۔

جب ان کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ ہوا تو کئی افراد کا ٹیسٹ مثبت پایا گیا۔ اس کے بعد میڈیا کے بعض حلقوں میں تبلیغی جماعت کے خلاف ایک مہم شروع ہو گئی اور 'کرونا جہاد' کے عنوان سے نیوز چینلز پر مباحثے ہونے لگے۔ ان مباحثوں میں تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو کرونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

پولیس نے تبلیغی جماعت کے رضا کاروں کے خلاف کیس درج کرنا شروع کر دیے اور ہزاروں افراد کو کرونا گائیڈ لائن اور ویزا قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن بعد ازاں عدالتوں نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا اور اب تقریباً سبھی رہا ہو کر اپنے اپنے وطن جا چکے ہیں۔

پانچ مئی کو لداخ کی گلؤان وادی میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان تصادم ہوا جس میں کئی فوجی زخمی ہوئے لیکن 15 اور 16 جون کی درمیانی شب دونوں افواج میں خونی تصادم ہوا جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔

بھارت کے نیوز چینلز کا دعویٰ تھا کہ 40 یا 45 چینی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں حالاں کہ چین نے اس کی تردید کی تاہم بعد میں اس کا اعتراف کر لیا گیا۔

لداخ میں ہونے والے تصادم کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان زبردست سرحدی کشیدگی پیدا ہو گئی۔ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ اور کشیدگی اب بھی برقرار ہے اور دونوں ملکوں کی فوجیں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں جب کہ ہر اجلاس میں پوزیشنز سے پیچھے جانے پر اتفاق ہوتا ہے۔

جون کی 14 تاریخ کو بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت ممبئی کے باندرہ میں واقع اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ رپورٹس کے مطابق انہوں نے خود کشی کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد نیوز چینلز پر زبردست مہم چلی اور یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ سوشانت نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں ہلاک کیا گیا ہے۔ اس کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے کی تاہم ابھی تک اس کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔

تین جولائی کو کان پور کے ایک گینگسٹر وکاس دوبے نے آٹھ پولیس والوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ لوگ اسے پکڑنے اس کے گھر گئے تھے۔ بعد میں ایک مبینہ مقابلے میں دوبے کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے ایک سال مکمل ہونے پر پانچ اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت اور کئی سادھوں نے حصہ لیا۔

14 ستمبر کو اترپردیش کے ہاتھرس ضلع میں 19 سالہ دلت خاتون کے ساتھ بدسلوکی گئی جس کی دو ہفتے کے بعد دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں موت ہو گئی۔ رپورٹس کے مطابق اجتماعی زیادتی کے وقت ہی اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس کی موت کے بعد یوپی پولیس نے اس کی لاش رات کی تاریکی میں اس کے اہلِ خانہ کی غیر موجودگی میں نذرِ آتش کر دی۔ اس پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ اس واقعے نے عالمی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔

زبردست احتجاج کے بعد اس واقعے کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی گئی۔ اس نے اپنی رپورٹ میں اجتماعی بدسلوکی کی تصدیق کی اور کہا کہ اسی وقت متاثرہ خاتون کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعے کے ذمے دار چاروں ملزمان جو بڑی ذات کے ہندو ہیں، جیل میں بند ہیں۔

30 ستمبر کو لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے بابری مسجد انہدام کے تمام 32 ملزموں کو الزامات سے بری کر دیا۔ ملزموں میں سابق نائب وزیر اعظم اور بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور ونے کٹیار جیسے رہنما شامل تھے۔

سی بی آئی جج سریندر کمار یادو نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سی بی آئی ملزموں کے خلاف اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی۔ اس فیصلے پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔

پارلیمنٹ نے 14 ستمبر کو تین زرعی قوانین کو بغیر بحث کرائے منظوری دی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ان قوانین کی مدد سے زرعی شعبے میں اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے گا لیکن کسانوں نے ان قوانین کی مخالفت شروع کر دی۔

پہلے پنجاب اور ہریانہ میں ان متنازع قوانین کے خلاف احتجاج شروع کیا گیا لیکن جب اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو کسانوں نے دہلی کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا۔ حکومت نے انہیں دہلی میں داخل ہونے سے روک دیا جس پر وہ دہلی اور ہریانہ کی سرحد پر سنگھو اور ٹکری کے مقام پردھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

26 نومبر سے ہی ہزاروں کسان دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے 7 دور ہو چکے ہیں تاہم یہ سب کے سب بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے اور اجناس کی مقرر کردہ سرکاری قیمت کو جسے کم سے کم سپورٹ پرائس یا (ایم ایس پی) کو قانونی درجہ دے تاکہ کوئی بھی اس سے کم قیمت پر اجناس کی خریداری نہ کر سکے۔

مذاکرات کا آخری دور 30 دسمبر کو دہلی کے وگیان بھون میں ہوا تاہم وہ بھی ناکام رہا اور متنازع قوانین کی واپسی کے مطالبے پر تعطل تاحال برقرار ہے۔ کسان اب بھی دھرنے پر بیٹھے ہیں جب کہ بات چیت کا اگلا دور 4 جنوری کو ہوگا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG