پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ اُنہیں حکومتی فیصلہ سازی میں اعتماد میں لیا جائے گا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھوتی جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم نے بدھ کو اتحادی رہنماؤں کو ظہرانے پر بلایا تھا جس میں اتحادی جماعتوں نے وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا کہ حزبِ اختلاف کی تحریک کے سدِباب کے لیے اتحادی جماعتوں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کی اس اہم ملاقات میں مسلم لیگ (ق) کی عدم شرکت نے حکمران اتحاد میں اختلافات پر بحث کو جنم دیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی نے وزیرِ اعظم کے ظہرانے میں عدم شرکت پر ایک معنی خیز ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اُن کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد 'ووٹ کے لیے تھا، کھانے کے لیے نہیں۔'
حکمران جماعت کے اتحادی رہنماؤں نے طرز حکمرانی، مہنگائی اور حکومتی فیصلہ سازی میں عدم مشاورت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کی یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی حکومت سے علیحدگی کے بعد مسلم لیگ (ق) کی ناراضگی سے حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں خاصی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے حکومت پر ایسے وقت میں سیاسی دباؤ ڈال رہی ہیں جب حزبِ اختلاف کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ق) کی ناراضگی سے قومی اسمبلی میں قلیل اکثریت رکھنے والی حکمران جماعت تحریک انصاف اپنی اکثریت کھو سکتی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں صرف چھ نشستوں کی برتری حاصل ہے۔
وزیرِ اعظم نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ ان کے معاملات جلد حل ہو جائیں گے۔ اُن کے بقول وہ ذاتی طور پر ان معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
عمران خان اپنے اس مؤقف پر بھی قائم ہیں کہ وہ حزبِ اختلاف کے دباؤ میں بدعنوانی کے خلاف اپنے بیانیے سے نہیں ہٹ سکتے۔
خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے مبینہ طور پر غیر مستحکم معاشی صورتِ حال، صوبوں کے حقوق کے معاملات اور مہنگائی پر حکومت گرانے کے لیے گزشتہ ماہ سے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔
اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے وزیرِ اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ پی ڈی ایم کے حکومت مخالف تحریک کے سدباب کے لیے اتحادی جماعتوں سے قریب مشاورت کا طرز عمل اپنائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ عام انتخابات پر اپنے تحفظات کے باوجود موجودہ حکومت کو جمہوریت کے تسلسل کے لیے اپنی حمایت ترک نہیں کریں گے۔
ان کے بقول وہ حکومت کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں لیکن بحیثیت حکومتی اتحادی جماعت اُنہیں بھی عوام کو جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔
خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے سندھ کے شہری علاقوں کے لیے کئے گئے وعدے پورے نہ ہونے پر اُنہیں تنقید کا سامنا ہے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق "چند ووٹوں کی اکثریت سے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت اتحادیوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی اور اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے مطالبات کی منظوری اس کی مجبوری ہے۔
ان کے بقول عمران خان کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کو راضی رکھیں یا وسط مدتی انتخاب کی طرف جائیں۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کا جائزہ لیں تو 156 نشستیں رکھنے والی تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ کے سات ارکان، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، پانچ ارکان کے علاوہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے تین، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے ایک، ایک رکن کی حمایت حاصل ہے۔
ایک سو بہتر کی عددی اکثریت کے ایوان میں 178 اراکین کی حمایت رکھنے والی تحریک انصاف مسلم لیگ (ق) یا متحدہ قومی موومنٹ کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی کیوں کہ ایسی صورت میں وہ اپنی اکثریت کھو دے گی۔
حکومت کو پہلے ہی سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باعث قانون سازی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پارلیمانی ماہرین کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کی ناراضگی کی صورت میں اگر حزبِ اختلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہے تو حکومت کو اپنی اکثریت ثابت کرنا مشکل ہوگا۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر مشاورت کر رہی ہیں۔