امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائیڈن نے آئندہ صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے اپنی نامزدگی باضابطہ طور پر قبول کر لی ہے اور اپنے ری پبلکن حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جمعرات کو چار روزہ ڈیموکریٹک کنونشن کے آخری روز اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی قوم مل کر اس سیاہ دور کا خاتمہ کرے گی جو ان کے بقول امریکہ پر اس وقت مسلط ہے۔
لگ بھگ آدھا گھنٹہ طویل اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ اور ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ صدر امریکہ میں کرونا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے اور اس سے ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کی وبا کو اتنا وقت گزر جانے کے باوجود اب تک صدر ٹرمپ کے پاس اس سے مقابلے کا کوئی منصوبہ نہیں اور وہ امریکہ کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے ہیں جو ناقابلِ معافی ہے۔
ریاست ڈیلاویئر کے شہر وِلمنگٹن سے بذریعہ انٹرنیٹ نشر کیا جانے والا جو بائیڈن کا خطاب ڈیموکریٹک کنونشن کا آخری خطاب تھا۔ کنونشن کے دوران پارٹی کے مندوبین نے انہیں اور ان کے ساتھ نائب صدر کی امیدوار کاملا ہیرس کو باضابطہ طور پر تین نومبر کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا۔
چار روزہ کنونشن کو کرونا کی وبا کے باعث مکمل طور پر آن لائن منتقل کر دیا گیا تھا جس کے دوران ڈیموکریٹ رہنماؤں اور دیگر شخصیات نے پہلے سے ریکارڈ شدہ اور براہِ راست خطابات کیے۔
صدر ٹرمپ کی پھر جو بائیڈن پر تنقید
آئندہ ہفتے ہونے والا ری پبلکن پارٹی کا چار روزہ کنونشن بھی مکمل طور پر آن لائن منتقل کردیا گیا ہے جس میں پارٹی مندوبین صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کو دوسری مدت کے لیے اپنا امیدوار نامزد کریں گے۔
صدر ٹرمپ کنونشن کے آخری روز 27 اگست کو خطاب کریں گے جس میں وہ پارٹی کی نامزدگی قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ صدر ٹرمپ کا یہ خطاب وائٹ ہاؤس سے نشر کیا جائے گا۔
ڈیموکریٹ کنونشن کے چار روز کے دوران صدر ٹرمپ بھی مختلف انتخابی سرگرمیوں میں مصروف رہے جس کے دوران انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی اور جو بائیڈن پر زبانی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
جمعرات کو ڈیموکریٹک کنونشن سے جو بائیڈن کے کلیدی خطاب سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے ریاست پینسلوینیا کے شہر اولڈ فورج میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ یہ مقام اسکرینٹن شہر کے نزدیک ہی واقع ہے جہاں بائیڈن نے اپنا لڑکپن گزارا تھا۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں ان کی زندگی کیسی ہوگی تو وہ منی ایپلس کی سلگتی عمارتیں، پورٹ لینڈ میں ہونے والے پرتشدد فسادات اور شکاگو کے خون آلود راستے یاد کرلیں اور سمجھ لیں کہ یہ ساری ابتری ان کے اپنے قصبے بلکہ امریکہ کے ہر قصبے تک پہنچنے والی ہے۔
صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں ایک بار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔ البتہ نام لیے بغیر ان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
بائیڈن نے الزام لگایا کہ صدر نے امریکہ کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو داؤ پر لگا دیا ہے اور دنیا بھر کے آمر حکمرانوں کے ساتھ رابطے بڑھائے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ صدر نے امریکہ میں نسلی بنیادوں پر ہونے والی نا انصافی کے خاتمے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔
بائیڈن کا نصف صدی طویل سیاسی کریئر
اگر جو بائیڈن تین نومبر کو ہونے والے انتخاب میں صدر منتخب ہونے میں کامیاب رہے تو وہ 78 سال کی عمر میں حلف اٹھانے والے امریکہ کی تاریخ کے معمر ترین صدر ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل دوسری مدت کے لیے صدر بننے میں کامیاب ہوئے تو حلف برداری کے وقت ان کی عمر 74 سال ہوگی۔
جو بائیڈن گزشتہ 50 سال سے امریکی سیاست میں سرگرم ہیں۔ وہ 36 سال تک امریکی سینیٹ کے رکن رہنے کے بعد 2009 سے 2016 تک سابق صدر براک اوباما کے ہمراہ نائب صدر رہے۔
بائیڈن نے اس سے قبل 1988 اور 2008 میں بھی صدارتی انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ دونوں بار ناکام رہے تھے۔
بائیڈن 2020 کے صدارتی انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کی دوڑ میں نسبتاً تاخیر سے شامل ہوئے تھے۔ لیکن پارٹی کے پرائمری انتخابات میں ابتدائی چند ریاستوں میں شکست کے بعد کئی اہم ریاستوں میں پے در پے کامیابیوں کے بعد وہ بآسانی اپنے مقابل موجود لگ بھگ دو درجن امیدواروں کو مات دے کر پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
جو بائیڈن نے چند ماہ قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ نائب صدر کا انتخاب لڑنے کے لیے کسی خاتون امیدوار کو منتخب کریں گے۔
بعد ازاں بائیڈن نے کیلی فورنیا سے منتخب سینیٹر کاملا ہیرس کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ کاملا خود بھی اس سال کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک تھیں لیکن بعد ازاں بائیڈن کے حق میں دستبردار ہوگئی تھیں۔
سینیٹر کاملا ہیرس امریکہ کی قومی سطح کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔