امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے گرمیوں کی تعطیلات پر گئے ایوان کے ارکان کو واپس واشنگٹن ڈی سی طلب کر لیا ہے تاکہ امریکی پوسٹل سروس کی فنڈنگ سے متعلق بِل منظور کیا جا سکے۔
اسپیکر پیلوسی نے ایوان کا اجلاس بلانے کا اعلان امریکہ کے پوسٹ ماسٹر جنرل کی جانب سے پوسٹل سروس کے اخراجات میں کٹوتی سے متعلق اقدامات تجویز کرنے کے ردِ عمل میں کیا ہے۔
ڈیموکریٹس کو خدشہ ہے کہ پوسٹل سروس کے وسائل میں کمی اور اخراجات میں کٹوتیوں کی وجہ سے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی بروقت ترسیل کی پوسٹل سروس کی صلاحیت متاثر ہو گی۔
ڈیموکریٹک رہنماؤں کے مطابق ایوانِ نمائندگان کے ہنگامی طور پر طلب کیے جانے والے اجلاس میں پوسٹ آفس کو اخراجات اور آپریشنز میں کٹوتی سے باز رکھنے کے لیے بِل لایا جائے گا۔
امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ ڈیموکریٹ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مجوزہ بِل کا مقصد پوسٹل سروس کے آپریشنز اور سروس اسی سطح پر برقرار رکھنا ہے جس پر وہ 2020 کے آغاز میں تھے۔
اسپیکر پیلوسی نے کہا ہے کہ مجوزہ بِل پر رائے شماری کے لیے ایوانِ نمائندگان کا اجلاس اسی ہفتے طلب کرلیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایوان کا کوئی اجلاس 15 ستمبر سے قبل شیڈول میں نہیں تھا۔
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ قائد چک شمر نے بھی اکثریتی ری پبلکن رہنما مچ مکونیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پوسٹل سروس میں مجوزہ تبدیلیوں کو روکنے کے لیے فوراً سینیٹ کا اجلاس بلائیں۔
تاہم سینیٹر مکونیل کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا فوری طور پر سینیٹ کا اجلاس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
کانگریس کے ڈیموکریٹ رہنماؤں نے پوسٹ ماسٹر جنرل لوئی ڈی جوائے اور امریکی پوسٹل سروس کے چیئرمین رابرٹ ڈنکن کو ایوانِ نمائندگان کی اوورسائٹ اینڈ ریفارم کمیٹی کے روبرو طلب کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امکان ہے کہ اس سماعت میں دونوں عہد داران سے پوسٹل سروس میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں پر جرح کی جائے گی۔
ڈی جوائے ری پبلکن پارٹی کے ایک متمول ڈونر ہیں جنہیں صدر ٹرمپ نے پوسٹ ماسٹر جنرل تعینات کیا تھا۔ ڈی جوائے مسلسل پوسٹ آفس کے معاملات میں سیاسی مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے پیشِ نظر سرکاری اداروں کو دی جانے والی ہنگامی امداد کی مد میں پوسٹل سروس کو 25 ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی مؤخر کر رہے ہیں تاکہ الیکشن میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کو مشکل بنایا جاسکے۔
گو کہ بعد ازاں صدر اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن ان کے اس بیان کے بعد سے امریکی سیاست میں ہلچل جاری ہے اور ڈیموکریٹس مسلسل اسے انتخابی عمل میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ڈیمو کریٹ پارٹی ری پبلیکن پارٹی کے تجویز کردہ کروناوائرس ریلیف پیکج کی حمائت کریں تو وہ پوسٹل سروس کے فنڈ کی منظوری دے دیں گے۔
کرونا کی جاری وبا کے باعث رواں سال امریکی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے جانے کا امکان ہے جس کی صدر ٹرمپ مخالفت کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ انتخابی عمل میں دھاندلی کے دروازے کھول دے گی۔ تاہم انہوں نے تاحال اپنے اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز نے بھی ڈیموکریٹس کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ صدر ٹرمپ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اتوار کو 'سی این این' سے گفتگو کرتے ہوئے مارک میڈوز نے کہا کہ صدر کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون اپنا ووٹ کیسے ڈالتا ہے لیکن ان کے بقول بہت بڑی تعداد میں ڈاک کے ذریعے ووٹ آنے کے نتیجے میں الیکشن کے نتائج تاخیر کا شکار ہوں گے۔
امریکہ کی 50 میں سے نو ریاستیں انتخابات میں ووٹنگ تقریباً مکمل طور پر ڈاک کے ذریعے کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جب کہ قوی امکان ہے کہ دیگر ریاستوں میں بھی لاکھوں رائے دہندگان کرونا کی وبا کے باعث ڈاک کے ذریعے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔