وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی ہے کہ امریکہ کا آئندہ صدارتی انتخاب طے شدہ شیڈول کے مطابق رواں سال تین نومبر کو ہی منعقد ہو گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے بھی صدارتی انتخاب میں تاخیر کے کسی بھی امکان کو مسترد کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے مشیران کے یہ بیان بظاہر صدر کی جانب سے انتخابات کے التوا کی سوال نما تجویز کے اثرات کم کرنے کی کوشش لگتے ہیں جس پر امریکہ کے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے ایک ٹوئٹ میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا کی وبا کے باعث انتخابات ملتوی کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
صدر کے اس تجویز نما بیان کو کانگریس میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں جماعتوں کے قائدین نے فوراً ہی مسترد کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی آئین کے تحت الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی کا اختیار کلی طور پر کانگریس کے پاس ہے۔
کانگریس رہنماؤں کی جانب سے صدر کی اس تجویز کو مسترد کیے جانے کے باوجود امریکہ کے سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں صدر کے اس بیان پر بحث کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
تاہم اتوار کو ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز نے کہا کہ صدر نے جب انتخاب ملتوی کرنے کی بات کی تھی تو ان کا اصل مقصد ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا تھا۔
ٹی وی چینل 'سی بی ایس' کے پروگرام 'فیس دی نیشن' میں بات کرتے ہوئے مارک میڈوز نے کہا کہ انتخابات تین نومبر کو ہی ہوں گے اور صدر ٹرمپ انتخاب میں کامیابی حاصل کریں گے۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مشیر جیسن ملر نے بھی اتوار کو 'فوکس نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے الیکشن میں کسی تاخیر کے امکان یا تجویز کو مسترد کیا۔
جیسن ملر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق تین نومبر کو ہی ہوں۔
واضح رہے کہ کرونا کی وبا کے باعث اس بار انتخابات میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح معمول سے کہیں زیادہ رہنے کا امکان ہے جس پر صدر ٹرمپ مسلسل تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کے باعث انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خدشہ ہے۔ البتہ ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر اس دعوے کے حق میں تاحال کوئی ٹھوس دلیل یا ثبوت پیش نہیں کرسکے ہیں۔
اتوار کو ٹی وی شو کے دوران جب وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف سے پوچھا گیا کہ کیا صدر کی جانب سے انتخابات کے التوا کی تجویز پیش کرنا غیر ذمہ دارانہ حرکت نہیں، تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
البتہ مارک میڈوز کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر انتخابات میں 100 فی صد ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے جائیں گے تو کیا انتخابات کے نتائج تین نومبر کو سامنے آسکیں گے؟
مارک میڈوز کے بقول ان کا تو خیال ہے کہ اس صورت میں انتخابات کے نتائج کا اعلان یکم جنوری تک بھی نہیں ہوسکے گا۔
کرونا کی وبا کے پیشِ نظر امریکی ریاستوں کے حکام کروڑوں ووٹرز تک ڈاک کے ذریعے بروقت بیلٹ پیپرز پہنچانے اور ان کی بروقت واپسی کے لیے انتظامات میں مصروف ہیں تاکہ ان بیلٹ پیپرز کو وقت پر گنا جاسکے۔
کئی ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات کے دن کے بعد موصول ہونے والے ان تمام بیلٹ پیپرز کو بھی نتائج میں شامل کریں گی جن پر تین نومبر کی تاریخ کا ٹکٹ لگا ہوگا۔
صدر ٹرمپ اور ان کے مشیران کا مؤقف ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں انتخابی نتائج غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوں گے۔