امریکہ میں اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے نائب صدارت کے لیے سیاہ فام خاتون سینیٹر کاملا ہیرس کا انتخاب کیا ہے۔
کاملا ہیرس کے انتخاب پر جہاں صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن پر تنقید کی ہے، وہاں سابق صدر براک اوباما سمیت کئی ڈیموکریٹک رہنما ان کی نامزدگی کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
کاملا ہیرس پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جنہیں نائب صدر کی امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
سینیٹر کاملا ہیرس صدر ٹرمپ کے مقابلے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ کی بھی خواہش مند تھیں جس کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے وہ شہ سرخیوں میں تھیں۔
امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی وہ اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔
پچپن سالہ کاملا ہیرس کے والد کا تعلق جمیکا سے ہے اور وہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ہیں، جب کہ ہیرس کی والدہ بھارت سے امریکہ آئیں اور یہاں کینسر پر تحقیق سے وابستہ رہیں۔
ہیرس جب سات سال کی تھیں تو ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہو گئی، جس کے بعد ہیرس کی والدہ نے انہیں پالا پوسا اور ان کے بقول وہ کئی جگہوں پر رہائش پذیر رہیں۔
سیاسی طور پر ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والی ہیرس کی بطور نائب صدر نامزدگی کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی سیاسی امور کی ماہر اینجلا رائی نے ہیرس کی نامزدگی کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ امید کی جا رہی ہے کہ ہیرس کی نامزدگی سے پارٹی میں اس سوچ کو تقویت ملے گی کہ سیاہ فام افراد خصوصاً سیاہ فام خواتین کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔
کاملا ہیرس نے ڈیموکریٹک پرائمری مقابلوں کے دوران بائیڈن پر کڑی تنقید بھی کی تھی۔
گزشتہ سال جون میں ڈیموکریٹک مباحثے کے دوران کاملا ہیرس نے جو بائیڈن پر نسلی تعصب کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ 1970 کی دہائی میں بطور نوجوان سینیٹر انہوں نے سفید اور سیاہ فام بچوں کا انضمام روکنے کے لیے الگ اسکول اور بسیں مختص کرنے کی حمایت کی تھی۔
کاملا ہیرس نے جو بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زمانے میں ایک چھوٹی بچی بھی اسکول بس میں سفر کرتی تھی جس کا نام کاملا ہیرس تھا۔
لیکن ان تلخیوں کے باوجود جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کے تعلقات میں بتدریج بہتری آتی رہی۔
جب کاملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر ہوئیں تو اگلے ہی روز جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ کاملا ہیرس کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کرنے پر غور کریں گے۔
گزشتہ سال ایک بیان میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ کاملا ہیرس باصلاحیت ہیں اور کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتی ہیں۔
جو بائیڈن نے کہا تھا کہ "کاملا ہیرس بہت مضبوط ہیں اور وہ خود بھی کسی روز امریکہ کی صدر بن سکتی ہیں۔ وہ نائب صدر بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کی جج بھی بن سکتی ہیں۔ وہ امریکہ کی اٹارنی جنرل بھی بن سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہیں۔"
کاملا ہیرس کو کیلی فورنیا ریاست کی وکیلِ استغاثہ کے طور پر تنازعات کا سامنا بھی رہا۔ اس پس منظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی نامزدگی کے بعد یہ تنقید کی کہ کاملا ہیرس نے ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد پرست بائیں بازو کی سوچ کو اپنا لیا ہے۔
سیاسی سفر اور اوباما سے موازنہ
ایک عام امریکی گھرانے میں پرورش پانے کے باوجود ہیرس کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے سماجی حلقوں میں ایک جانا پیہچانا نام تھا۔
ہیرس کی سیاسی زندگی کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے ان کی دوست شیرن اوسلے نے 'دی نیو یارکر' جریدے کو بتایا کہ آج سے 25 برس پہلے آرٹ کے چاہنے والے ہم خیال لوگوں کا مل بیٹھنا اہم تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے دولت درکار نہیں تھی بلکہ اس کے اراکین کا ذہین ہونا ضروری تھا اور یہی کاملا ہیرس کی خاصیت تھی کہ وہ کمرے میں موجود لوگوں کو سامعین میں تبدیل کر دیتی تھیں۔
سیاسی طور پر جب ان کا موازنہ سابق صدر براک اوباما سے کیا جانے لگا تو انہیں یہ اچھا نہیں لگتا تھا۔
ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں انہیں اٹارنی جنرل اور پرائمری انتخابات کے دوران انہیں 'دی فیمیل اوباما' قرار دیا جاتا رہا۔
ان کے مشیر شان کلیگ نے 'دی نیو یارکر' کو بتایا کہ کاملا ہیرس کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ انہیں آبادی کے کسی مخصوص طبقے کے صرف ایک فرد تک محدود کر دیا جائے۔
ان کے بقول انہیں یہ بھی پسند نہیں کہ انہیں کسی مرد کے کارناموں کی بنیاد پر پرکھا جائے۔
کاملا ہیرس کے خیالات کے باوجود اوباما نے ان کی نامزدگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور نائب صدر کام کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہیں۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ آج کا دن امریکہ کے لیے بہت اچھا ہے۔
کاملا ہیرس مختلف مواقع پر امن و امان اور نظامِ انصاف سے متعلق اپنے وسیع تجربے کو بروئے کار لانے کا بھی اظہار کرتی رہی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک ترقی پسند اٹارنی جنرل کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہیرس جرائم کے سدِباب کے لیے سخت پالیسیاں اپنانے کی حامی ہیں۔
مثال کے طور پر بطور پراسیکیوٹر طلبہ کی اسکول سے غیر حاضری کی پاداش میں والدین کو جیل بھیجنے کی دھمکی اور اس نوعیت کے دیگر واقعات پر ان کے ناقدین تحفظات کا بھی اظہار کرتے رہتے ہیں۔
لیکن ان تمام تر تنازعات کے باوجود ہیرس اپنے سیاسی سفر میں آگے بڑھتی رہیں۔ اور کئی سال اٹارنی جنرل رہنے کے بعد 2016 میں وہ امریکی سینیٹ کی رکن بن گئیں اور پھر ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں بھی شامل رہیں۔