بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام نے سیاحوں کو ایک مرتبہ پھر وادئ کشمیر کی طرف راغب کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ تاہم، سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تاجروں کو خدشہ ہے کہ وادی کی مخدوش صورتِ حال کے پیش نظر سیاحوں کو دوبارہ راغب کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹر نثار احمد وانی کہتے ہیں کہ سیاحوں کو ایک مرتبہ پھر وادی کی طرف راغب کرنے کی کوششوں کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی سیاحوں کے چند گروپ گزشتہ دنوں 'گلمرگ' میں دیکھے گئے تھے جو ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسم سرما کے آغاز پر غیر ملکی سیاح بھی گلمرگ آئیں گے، جب کہ دسمبر میں یہاں سرمائی کھیلوں کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
ریاستی حکومت نے اگست کے پہلے ہفتے میں سیاحوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع امرناتھ غار کی یاترا پر آئے ہوئے ہندو زائرین کو فوری طور پر وادی سے چلے جانے کے لیے کہا تھا۔ محکمہ داخلہ نے ایک ایڈوائزی جاری کرکے سیاحوں اور یاتریوں کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کے حملے کا خطرہ ہے۔ بعدزاں، پانچ اگست کو بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔
وادی سے تازہ سیب اور دوسرے میوہ جات باہر کی منڈیوں میں لے جانے والے غیر مقامی ڈرائیوروں اور ان کی گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے پھر حملے ہوئے ہیں۔ جمعرات کی شام کو جنوبی ضلع شوپیان میں کیے گیے اس طرح کے ایک حملے میں دو ڈرائیورز ہلاک ہوئے اور ان میں سے ایک کا معاون شدید زخمی ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سیاحوں کی آمد کی توقع کرنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
ریاستی حکومت نے دو اگست کو جاری کی گئی ایڈوائزری کو اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں واپس لے لیا تھا۔ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے ترجمان روہت کنسال نے کہا تھا کہ "ہم ایک مرتبہ پھر سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کے یہاں قیام کو آسان اور یادگار بنانے کے لیے حکومت ہر ضروری اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ انہیں ہر سیاحتی مرکز پر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔"
نثار وانی کو یقین ہے کہ راستے میں حائل دشواریوں اور مشکلات کے باوجود وادی میں سیاحت کو دوبارہ فروغ حاصل ہو گا۔ انہوں کے کہا کہ ہمیں وادی میں سیاحت کے شعبے کی بحالی کا پورا یقین ہے۔ ان کے بقول، موسم سرما میں سیاحوں کے پسندیدہ مقام گلمرگ کی کشش سیاحوں کو یہاں کھینچ لائے گی۔
سیاحت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ تین برس سے وادی میں سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث ہوٹل، شکارے(کشتی)، ٹیکسی ڈرائیورز، کشمیری دستکاریاں فروخت کرنے والے افراد کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔
محکمہ سیاحت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں 54 ہزار غیر ملکی باشندوں سمیت ساڑھے آٹھ لاکھ سیاح وادی کی سیر پر آئے تھے۔ عہدیداروں کو توقع تھی کہ 2019 میں یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اب تک صرف پانچ لاکھ ساٹھ ہزار سیاح ہی وادی میں چھٹیاں گزار کر گئے ہیں۔
سرکردہ تاجر اور کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے وائس آف امریکہ کو حال ہی میں دیے گیے ایک انٹرویو کے دوراں کہا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شورش نے ریاست کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
تاہم، ریاست کے گورنر ستیہ ملک کا اصرار ہے کہ یکم نومبر کو ریاست کی تنظیمِ نو کے بعد صورتِ حال میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ انہوں نے کہا "ایک نئے کشمیر کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کا آگے آنا ہو گا‘‘۔