بلوچستان کابینہ کے ایک حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’سی پیک‘ کی ’جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی‘ کے چین میں منعقد ہونے والے اجلاس میں مغربی روٹ کے منصوبے شامل کرنے کے لئے ’’ٹھوس مؤقف اپنایا جائے گا‘‘۔
اجلاس میں ’سی پیک‘ کے تناظر میں عام آدمی کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے منرل زونز، فشنگ زونز، انڈسٹریل زونز اور فوڈ پراسیسنگ جیسے منصوبوں کو بھی ناگزیر قرار دیا گیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ سابق حکومتوں نے ’سی پیک‘ کے حوالے سے بلوچستان کی مناسب نمائندگی نہیں کی؛ جس وجہ سے، صوبے کے اہم منصوبے اس میں شامل نہیں کئے گئے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سی پیک میں اپنے اہم منصوبے شامل کرانے کے لئے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی میں صوبے کے اہم منصوبے پیش کرے گی۔
اُن کے بقول، ’’ہم چاہتے ہیں کہ منصوبے کے بنیاد ی ڈھانچے کو بڑھایا جائے۔ اب کُل تین چار اقتصادی زونز بن رہے ہیں، جن میں ایک ژوب، ایک خضدار، ایک تربت اور ایک کوئٹہ میں بن رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں خیبر پختونحوا نے اپنے منصوبے منظور کرائے۔ لیکن، ہماری سابق صوبائی حکومت نہیں کرا سکی۔ ہم چاہتے ہیں اگر ہمارے منصوبے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی، جی سی سی یا جوائنٹ ورکنگ گروپ میں نہیں کر اسکی، تو صوبائی حکومت نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھے‘‘۔
میر ظہور بلیدی نے کہا کہ ’’ہمیں وفاقی حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جو بھی منصوبے بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، ہم اُس ہر منصوبے کو شامل کرائیں گے‘‘۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں کافی عرصے سے ’سی پیک‘ کے مغربی روٹ اور اس میں صوبے کا حصہ بڑھانے کے مطالبات کرتی آئی ہیں۔
تجزیہ نگار امان اللہ شادیزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کےلئے سی پیک کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ بلوچستان کی حکومت کی طرف سے نئے منصوبے وہاں پیش کرنے کی کوشش اگر کامیاب ہوئی تو یہ اس پسماندہ صوبے کےلئے بہت بڑی خوشخبری ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ پہلا موقع ہے کہ سی پیک کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کا موقف لائق تحسین ہے، چونکہ سی پیک کا محور بلوچستان ہے اس لیے اس کا زیادہ فائدہ بھی اسی صوبے کو ملنا چاہیے۔ وہ صوبے میں چار زون بنانا چاہتے ہیں جس میں کم ازکم 80 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے لئے قابل لوگ ہیں۔ یہ ایک کمزوری ہو سکتی ہے۔ اب اگلا مرحلہ عملدرآمد کا ہے۔ اگر عملدارآمد ہو تو بلوچستان کو فائدہ ہوسکتا ہے‘‘۔
اربوں ڈالر کے پاک چین اقتصادی منصوبے میں بلوچستان کو مرکزی اور گوادر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن، ماضی کی حکومت نے اس منصوبے میں غربت اور پسماندگی کے شکار اس صوبے کے بہت کم منصوبے شامل کئے تھے؛ جس پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اکثر و بیشتر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ تاہم، صوبائی حکومت کی کوششوں سے اگر اس میں صوبے کے مزید منصوبے شامل کئے گئے، تو اس سے صوبے کے حالات اور معیشت پر کافی مثبت اثرات پڑیں گے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے مزید کہا ہے کہ ’جوائنٹ ورکنگ گروپ‘ کے اجلاس میں چار رویہ سڑک کی ڈی آئی خان، ژوب، کوئٹہ شاہراہ؛ چار لائن کی خضدار، بسیمہ شاہراہ؛ چار لائن کی نوکنڈی ماشکیل، پنجگور، مند، تربت، گوادر شاہراہ؛ لورالائی، موسیٰ خیل، تونسہ روڈ، خضدار تا حب دو رویہ روڈ؛ مکران ٹرانسمیشن لائن؛ برج عزیز ڈیم اور حلک ڈیم کے منصوبوں کے مسودے کو پیش کیا جائے گا۔
ساتھ ہی، ’بوستان اسپیشل اکنامک زون‘ میں چینی صنعتوں کے قیام کے لئے چین کی حکومت کے وعدے کی تکمیل کو جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔