امریکہ نے پیر کے روز 60 روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کا حکم جاری کیا ہے، جن پر جاسوسی کا الزام ہے، اور جنھیں اِسی ہفتے ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
ایک درجن کے قریب اتحادی ملکوں نے، جن میں فرانس، جرمنی اور پولینڈ شامل ہیں، چار مارچ کو برطانیہ کے شہر سالسبری میں ایک سابق روسی ڈبل ایجنٹ اور اُن کی بیٹی پر اعصابی حملا کرنے پر اِسی قسم کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اِس اقدام کے علاوہ، امریکہ نے ملک میں روسی قونصل خانہ بند کر دیا ہے۔امریکی محکمہٴ خارجہ کے مطابق، یہ اقدام روس کی جانب سے ’’کیمیائی معاہدوں اور بین الاقوامی قانون کی اشتعال انگیزی پر مبنی خلاف ورزی‘‘ پر لیا گیا ہے۔
برطانیہ اور متعدد دیگر ملکوں اور نیٹو نے بھی کیمیائی حملے کا الزام روس پر لگایا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے، ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے بتایا ہے کہ روس نے ’’عدم استحکام اور جارحانہ اقدامات کا طبل بجایا ہے‘‘۔
دو اپریل تک امریکہ نے ریاستِ واشنگٹن کے بحرالکاہل کی بندرگاہ پر واقع شہر سیاٹل میں قائم روسی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا ہے؛ اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہ یہ ’بوئنگ ایئرکرافٹ‘ تنصیب اور ’کیٹسپ‘ بحری بیڑے کے قریب واقع ہے، جو امریکی بحریہ کی نیوکلیئر آبدوز کے لنگر انداز ہونے کا اڈا ہے۔
انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے پیر کی صبح کیے گئے اعلان سے قبل، اخباری نمائندوں کو بتایا کہ یہ قونصل خانہ ’’اس وسیع تر مسئلے کا جُزو ہے، جس میں روس کے کارندوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں موجود ہے، جن کے خلاف ضرورت پڑنے پر اضافی اقدام کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ایک بیان میں، وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے یہ اقدام نیٹو کے اپنے اتحادیوں اور ساجھے داروں سے مل کر کیا ہے، تاکہ برطانیہ کی سرزمین پر فوجی سطح کے کیمیائی ہتھیار رکھنے کی پاداش میں روس کو جواب دیا جائے، جس حربے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے روس دنیا بھر میں عدم استحکام کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘‘۔
اپنے بیان میں ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’امریکہ روس کے ساتھ بہتر تعلقات تشکیل دینے میں تعاون پر تیار ہے۔ لیکن، یہ تبھی ہوسکتا ہے جب روسی حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے‘‘۔
اہل کاروں کے مطابق، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ منگل کو ٹیلی فون پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گفتگو کی، روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پیر کے روز اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، اعلیٰ امریکی اہل کار نے اس بات کو واضح کیا کہ ’’یہ دراصل اُنہی کا فیصلہ ہے‘‘۔