رسائی کے لنکس

برطانیہ کا 23 روسی سفارت کاروں کو ملک سے نکلنے کا حکم


لندن میں واقع روسی سفارت خانے کا ایک منظر (فائل فوٹو)
لندن میں واقع روسی سفارت خانے کا ایک منظر (فائل فوٹو)

بدھ کو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے پارلیمان کے دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر روس کا ردِ عمل "استہزا، توہین اور خودسری" پر مبنی ہے۔

برطانیہ نے اپنے ایک شہری پر زہریلی گیس کے حملے اور اس واقعے کا الزام روس پر عائد کرنے کے بعد برطانیہ میں تعینات روس کے 23 سفارتی اہلکاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

چار مارچ کو برطانیہ کے شہر سالسبری میں کیے جانے والے زہریلی گیس کے حملے میں روسی نژاد برطانوی شہری سرگئی اسکری پال اور ان کی بیٹی یولیا شدید متاثر ہوئے تھے جو تاحال تشویش ناک حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

سرگئی اسکری پال روسی فوج میں انٹیلی جنس افسر تھے جو برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے تھے۔ وہ 2010ء میں روس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے جاسوسوں کے تبادلے کے نتیجے میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔

برطانیہ نے اس حملے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی خود مختاری اور سلامتی کے منافی اقدام قرار دیا تھا اور برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے کہا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس حملے میں روس ملوث ہے۔

انہوں نے روس کو اس معاملے پر وضاحت دینے کے لیے بدھ تک کا وقت دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر کریملن نے اس بارے میں کوئی قابلِ بھروسا ردِ عمل نہ دیا تو برطانوی حکومت یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ یہ حملہ کرکے روس نے برطانیہ کے خلاف طاقت کا ناجائز استعمال کیا ہے۔

برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں سوویت دور کی زہریلی گیس استعمال کی گئی تھی۔

تاہم روس نے برطانیہ کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مضحکہ خیز قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک برطانیہ استعمال کی جانے والی زہریلی گیس کا نمونہ روس کو نہیں دیتا اور معاملے کی تحقیقات کیمیائی ہتھیاروں کے نگران بین الاقوامی ادارے کے سپرد نہیں کرتا، اس بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

بدھ کو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے پارلیمان کے دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر روس کا ردِ عمل "استہزا، توہین اور خودسری" پر مبنی ہے۔

انہوں نے روس کے خلاف اپنی حکومت کےان اقدامات کا اعلان کیا کہ جو ان کے بقول مذکورہ حملے کے ردِ عمل میں کیے جارہے ہیں۔

تھریسا مے نے کہا کہ روسی سفارت کاروں کے پاس برطانیہ چھوڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت ہے۔ گزشتہ 47 برسوں میں برطانیہ کی جانب سے ملک بدر کیے جانے والے روسی سفارت کاروں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

اس سے قبل برطانیہ نے 1971ء میں سرد جنگ کے عروج کے وقت روسی سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر ملک بدر کردیا تھا۔

تھریسا مے نے کہا کہ ان کی حکومت دیگر ریاستوں کی جانب سے معاندانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے قوانین بنائے گی اور جاسوسی روکنے کے لیے نئے اقدامات متعارف کرائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت روس اور برطانیہ کے درمیان تمام اعلیٰ سطحی رابطے معطل کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث روسی شہریوں کے برطانیہ میں موجود اثاثے منجمد کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔

روس نے برطانوی وزیرِ اعظم کی بدھ کو کی جانے والی تقریر کو "ایک غیر معمولی اور غیر روایتی اشتعال انگیزی" قرار دیا ہے جس سے روسی حکام کے بقول "دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے رابطوں کی بنیادیں تک متاثر ہوں گی۔"

مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' اور امریکہ نے بھی اس معاملے پر برطانوی موقف کی حمایت کی ہے۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ جیسے جوابی اقدامات کرنے کے لیے اتحادی ملکوں سے بھی رابطے کر رہے ہیں تاکہ روس کو سبق سکھایا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG