رسائی کے لنکس

روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں قہقہوں کی گونج


بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں جوکر بچوں کو کرتب دکھا رہے ہیں۔ اکتوبر 2017
بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں جوکر بچوں کو کرتب دکھا رہے ہیں۔ اکتوبر 2017

پرفارمنس دیکھنے والوں میں صرف بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی شامل تھے۔ نصیر احمد جن کی عمر38سال ہے، ان کا کہنا ہے’ ہمیں زندگی میں تفریح کا موقع شاید ہی کبھی ملا ہو۔ عید تہوار پر بھی ہمیں تفریح میسر نہیں ہوتی۔

مشکل حالات میں میانمارسے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمان اب لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بچوں پر مشتمل ہے جو حالات کے باعث خوف و ہراس اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ایسے میں کیمپ میں’ جوکر‘یا ’مسخروں‘کی ا ٓمد نے ان بچوں کے ہونٹوں سے روٹھی مسکرا ہٹ واپس دلا دی۔

کیوٹوپالونگ کے علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا پناہ گرین کیمپ اس وقت بچوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا جب مقامی تھیٹر گروپ نے پناہ گزین کیمپ میں سینکڑوں بچوں کے لئے کرتب کا اہتمام کیا اور سرخ ناک اور مزاحیہ چہرے والے مسخروں نے دلچسپ کرتب دکھائے۔

دس سال کا محمد نور اپنی والدہ اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ کیمپ میں مقیم ہے جہاں کھانے اور پانی کی قلت نے زندگی کو مستقل جدوجہد بنا دیا ہے۔ محمد نور گذشتہ مہینے اپنے والد کے برمی فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد بنگلہ دیش پہنچا تھا۔

محمد نور نے فرانسیسی خبرایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کرتب اور سرکس کے بارے میں کہا کہ یہ بہت مزاحیہ ہے۔ میں نے ایسی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں اور میرا دوست بس مستقل ہنسے جارہے تھے۔

بنگلہ دیش کے تھیڑ گروپس طویل عرصے سے حادثات کا شکار بچوں کو’ ڈرامہ تھرپی‘ کے ذریعے مدد فراہم کررہے ہیں۔ ان گروپس کی سرگرمیوں سے خاص طور بچوں کو اپنے اوپر گزری مصیبت کو وقتی طور پر پھولنے میں مدد ملتی ہے۔

تھیڑ گروپ کی واحد خاتون پرفارمر رینا اخترپوتل کا کہنا ہے کہ ہمارا واحد مقصد روہنگیا بچوں کو خوش کرنا او ران کی کھوئی ہوئی مسکرا ہٹ واپس لانا ہے۔ لوگوں کوہنسانا ایک مشکل کام ہے خصوصا ایسی صورت حال میں جب وہ اپنے پیاروں کو کھو چکے ہوں۔

دو عشروں سے زائد عرصے سے ڈرامہ تھراپی سے وابستہ فاخر علی نے اس امید کا اظہار کیا کہ’ دکھائے گئے کرتب بچے کچھ عرصے یاد رکھیں گے۔ اس سے ان کے زخم بھریں گے تو نہیں لیکن اعتماد میں ضرور اضافہ ہوگا۔

پرفارمنس دیکھنے والوں میں صرف بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی شامل تھے۔ نصیر احمد جن کی عمر38سال ہے، ان کا کہنا ہے’ ہمیں زندگی میں تفریح کا موقع شاید ہی کبھی ملا ہو۔ عید تہوار پر بھی ہمیں تفریح میسر نہیں ہوتی۔

تریسٹھ سال کے خیرالامین نے کہا’ آرکان میں زندگی بہت غمگین اور مشکل ہے۔ نہ ٹی وی ہے اور نہ ہی سینما یا تھیٹر۔ ہروقت فوج کے ہاتھوں قتل کئے جانے یا گرفتاری کا خوف رہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق چھ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں میں60 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ اگست سے اب تک بنگلہ دیش پہنچنے والے بچوں میں سے بہت سے بچوں نے اکیلے ہی سرحد پار کی۔

روہنگیا کی ریاست رخائن میں روہنگیا کمیونٹی کے خلاف برمی فوج کا ا ٓپریشن جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG