بنگلادیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی مدد جاری رکھے گی جو تشدد سے بچنے کے لیے ہمسایہ ملک میانمار سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
حسینہ نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی امدادی اداروں کی مدد سے روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے ایک جزیرے پر عارضی پناہ گاہیں بنانے کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ بیان نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد بنگلادیش واپسی پر ڈھاکا ائیرپورٹ پر دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی میانمار میں تشدد کو" نسل کشی" قرار دیا ہے۔
حسینہ واجد نے میانمار پر سرحدی کشیدگی بڑھانے کا الزام عائد کیا تاہم انہوں نے اپنے ملک کی سکیورٹی فورسز سے کہا کہ وہ اس بحران سے "بہت ہی احتیاط" کے ساتھ نمٹیں۔
رواں سال اگست کے بعد سے اس وقت پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان سرحد پار کر کے بنگلادیش پہنچے جب میانمار کی سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے حملوں کے ردعمل میں رخائین کی ریاست میں وسیع پیمانے پر کارروائیاں شروع کر دیں۔
عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے بقول اس دوران آتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے۔ قبل ازیں 1978ء میں اتنی ہی تعداد میں روہنگیا برادری کے افراد میانمار سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
میانمار کی حکومت روہنگیا افراد کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور اس کا اصرار رہا ہے کہ وہ بنگلادیش سے آنے والے بنگالی تارکین وطن ہیں جو ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ رخائین ریاست میں حال ہی میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات نا روکنے پر میانمار کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اس صورت حال کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں روہنگیا برادری کے افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی جس کی وجہ سے ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
ہفتے کو بنگلادیش کی وزیر اعظم حسینہ نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کی آبادکاری اس وقت تک عارضی رہے گی جب تک وہ میانمار میں اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ جاتے اور حکومت ان کو خوراک و رہائش فراہم کرنے کے لیے ان کی مدد کرتی رہے گی۔