میانمار کی ریاستِ رخائن سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش پہنچنے والی درجنوں خواتین ایسی ہیں جنہیں برمی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ بنگلہ دیش میں کیمپوں میں مقیم روہنگیا خواتین کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز سے بنگلہ دیش کے کوتو پالونگ علاقے کے ایک اسکول کے ویران کلاس روم کے بند دروازوں کے پیچھے ملاقات میں تیرہ سال کی مینارہ اور پندرہ سال کی فاطمہ نے خود پر گزری ظلم کی داستان سنائی جو دیگر خواتین کی آب بیتی بھی کہی جا سکتی ہے۔
مسلمان خاندان میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والی دونوں کم عمر بچیوں کو برمی فوجیوں نے متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا۔ مینارہ اور فاطمہ کا گھرلوٹ لیا گیا اور بعد میں آگ لگا دی گئی۔
تیرہ سال کی مینارہ کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے بعد سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اپنا گھربار چھوڑ کر اور پیاروں سے بچھڑ کر دونوں بہنیں دیگر لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی طرح کسی نہ کسی طریقے سے بنگلہ دیش پہنچ گئیں۔
مینارہ اور فاطمہ سے ملتی جلتی داستان پانچ بچوں کی ماں بولی بازار کی حسن آرا کی بھی ہے۔ حسن آراء نے رائٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے پانچ بچے ہیں۔ آبائی گاؤں میں برمی فوجیوں نے گھر پر دھاوا بولا اور تین فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
حسن آراء نے روتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک بیٹی کو ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ آگ میں پھینک دیا گیا جبکہ دو بچے لاپتہ ہیں۔ مجھے بندوقوں کے بٹ سے مارا بھی گیا۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے دو بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچی۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں طبی امداد فراہم کرنے والے عملے کا کہنا ہے کہ برمی فوجیوں نے درجنوں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ ان خواتین کے زخموں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈاکٹرز اور امدادی ایجنسیاں شاذ و نادر ہی ریپ کے شکار خواتین کے بارے میں بات کرتی ہیں۔
ان کی گفتگو سے زیادتی کے واقعات میں ملک کی مسلح افواج کے ملوث ہونا اور معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میانمار کے حکام اور فوجی ذرائع خواتین سے زیادتی کے واقعات کو فوج کو بدنام کرنے کی سازش اور جنگجوؤں کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ تاہم، رائٹرز نے مختلف ذرائع سے رابطہ کیا جن میں اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کے نمائند ے اور ڈاکٹرز شامل ہیں تو ان سب نے خواتین سے زیادتی کی تصدیق کی۔
امدادی ایجنسیوں کے کارکنوں اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ زیادتی کا شکارخواتین نے علیحدگی میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بتایا۔ ان کے جھوٹ بولنے کا کوئی جواز نہیں۔ اب تک سیکڑوں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
بنگلہ دیش میں کام کرنے والی امدادی ایجنسی کے مطابق 3293 کیسز ایسے تھے جن کو جنس کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ اصطلاح ہے جو عام طور پر خواتین سے زیادتی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔یہ خواتین کو 25 اگست سے لے کر 17 ستمبرکے دوران زیادتی کا شکار ہوئیں۔
بنگلہ دیش کے لیڈا مارکیٹ کے پناہ گزین میں قائم اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فور مائیگریشن (آئی اورایم) کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے سینکڑوں خواتین کا ایسے زخموں کا علاج کیا گیا جو جنسی تشدد کے نتیجے میں آتے ہیں۔ ان خواتین پر جنسی حملے اکتوبر اور نومبر میں آرمی آپریشن کے دوران ہوئے۔
کلینک کے ہیلتھ کوآر ڈی نیٹر ڈاکٹر نرانتا کمار کا کہنا تھا '’جنسی زیادتی کا شکار 30 خواتین نے اپنا حمل ضائع کرایا۔‘'
ڈاکٹرس ودائوٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی کاکس بازار میں ایمرجنسی میڈیکل کو آر ڈی نیٹرکیٹ وائٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ جنسی حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
کیٹ وائٹ کے بقول، تنازعوں اور انتہائی کشیدہ حالات میں جنسی تشدد بڑھ جاتا ہے۔ لیکن، جو داستانیں بچ جانے والی روہنگیا خواتین کی سامنے آرہی ہیں وہ ہولناک ہیں۔ خواتین ذہنی امراض میں بھی مبتلا ہورہی ہیں۔
امدای ایجنسیوں کے مطابق، 25 اگست سے 350 زیادتی اور جنسی تشدد کا شکار خواتین کو ’لائف سیونگ کئیر‘ فراہم کی گئی۔