سپریم کورٹ کی جانب سےتوہین عدالت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکمراں اتحاد نے نئی قانون سازی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں وزیراعظم کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اتحادی جماعتوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ چیلنج سے متحد ہو کر نمٹا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکمراں اتحاد کا ایوان صدر اسلام آباد میں جمعہ کی رات صدرآصف علی زرداری اور وزیراعظم کی صدارت میں مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ۔ اجلاس میں مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین ، ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی ، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار اور بابر غوری ، اے این پی کے حاجی عدیل اور افراسیاب خان خٹک، فاٹا سے منیر اورکزئی اور بی این پی عوام کے میر اسرار اللہ زہری نے شرکت کی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اورحکمران جماعت پیپلزپارٹی نے نئی قانون سازی سے متعلق اتحادی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لیا جس کے تحت وزیراعظم کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزارت قانون نے نئے قانون کیلئے مسودے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق توہین عدالت پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
اجلاس میں اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کابنیادی حق ہے اور وہ اس حق سے دستبردار نہیں ہو گی اور اس کیلئے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی ادا کریں گے ۔
اجلاس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا اور صدر نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر وزیر اعظم نے اجلاس میں بریفنگ بھی دی ۔صدر نے چھوٹے ڈیم بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع بھی استعمال میں لائے جائیں ۔
یاد رہے کہ آٹھ اگست کو سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم سے صدر آصف زرداری کے سوئس مقدمات کھولے جانے سے متعلق جواب طلب کر رکھا ہے ۔ خط نہ لکھنے پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی بھی توہین عدالت کیس میں چھٹی ہو چکی ہے ۔ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے توہین عدالت قانون کی منظوری دی لیکن سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس قانون کو کالعدم قراردے دیا ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کےبعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا راجہ پرویز اشرف کو بھی توہین عدالت قانون کے تحت وزیراعظم ہاؤس چھوڑنا پڑے گا؟کیا اس عمل سے آئندہ انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے؟ وزیراعظم کی نااہلی کی صورت میں نگران سیٹ اپ کے لئے وزیراعظم کے نام کا چناوٴ بھی اہم مرحلہ ہو گا اورکیا حکومت اور ن لیگ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے منزل تک پہنچا سکیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکمراں اتحاد کا ایوان صدر اسلام آباد میں جمعہ کی رات صدرآصف علی زرداری اور وزیراعظم کی صدارت میں مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ۔ اجلاس میں مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین ، ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی ، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار اور بابر غوری ، اے این پی کے حاجی عدیل اور افراسیاب خان خٹک، فاٹا سے منیر اورکزئی اور بی این پی عوام کے میر اسرار اللہ زہری نے شرکت کی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت قانون کو کالعدم قرار دینے کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اورحکمران جماعت پیپلزپارٹی نے نئی قانون سازی سے متعلق اتحادی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لیا جس کے تحت وزیراعظم کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزارت قانون نے نئے قانون کیلئے مسودے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق توہین عدالت پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
اجلاس میں اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کابنیادی حق ہے اور وہ اس حق سے دستبردار نہیں ہو گی اور اس کیلئے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی ادا کریں گے ۔
اجلاس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا اور صدر نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر وزیر اعظم نے اجلاس میں بریفنگ بھی دی ۔صدر نے چھوٹے ڈیم بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع بھی استعمال میں لائے جائیں ۔
یاد رہے کہ آٹھ اگست کو سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم سے صدر آصف زرداری کے سوئس مقدمات کھولے جانے سے متعلق جواب طلب کر رکھا ہے ۔ خط نہ لکھنے پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی بھی توہین عدالت کیس میں چھٹی ہو چکی ہے ۔ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے توہین عدالت قانون کی منظوری دی لیکن سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس قانون کو کالعدم قراردے دیا ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کےبعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا راجہ پرویز اشرف کو بھی توہین عدالت قانون کے تحت وزیراعظم ہاؤس چھوڑنا پڑے گا؟کیا اس عمل سے آئندہ انتخابات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے؟ وزیراعظم کی نااہلی کی صورت میں نگران سیٹ اپ کے لئے وزیراعظم کے نام کا چناوٴ بھی اہم مرحلہ ہو گا اورکیا حکومت اور ن لیگ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے منزل تک پہنچا سکیں گے۔