پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ملک کا آئین اہم عوامی عہدوں پر فائض شخصیات کو توہین عدالت کے الزام میں قانونی چارہ جوئی سے مبرا قرار نہیں دیتا۔
یہ بات انھوں نے بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جاری توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کے سماعت کے دوران کہی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے نئے قانون میں لکھا ہے کہ مخصوص افراد عدالت میں جو چاہیں کریں، ان پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگے گا۔
وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے حتیٰ کہ وہ استثنیٰ سے متعلق بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقننہ پر قانون سازی سے متعلق بدنیتی کا الزام، عوام پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت قانون سازوں کو آزادی اظہار کی مشروط آزادی حاصل ہے۔ پارلیمنٹیرین توہین عدالت کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ ٹرائل کے لیے کیس بھیجنے کے پابند ہیں۔
یہ بات انھوں نے بدھ کو عدالت عظمیٰ میں جاری توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کے سماعت کے دوران کہی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے نئے قانون میں لکھا ہے کہ مخصوص افراد عدالت میں جو چاہیں کریں، ان پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگے گا۔
وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے حتیٰ کہ وہ استثنیٰ سے متعلق بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقننہ پر قانون سازی سے متعلق بدنیتی کا الزام، عوام پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت قانون سازوں کو آزادی اظہار کی مشروط آزادی حاصل ہے۔ پارلیمنٹیرین توہین عدالت کرے تو اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ ٹرائل کے لیے کیس بھیجنے کے پابند ہیں۔