سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے بیٹے ارسلان افتخاراور بحریہ ٹاؤن کے سابق سربراہ ملک ریاض کے درمیان 34کروڑ روپے سے زائد کی رقم کے تنازعہ پر تحقیقاتی ٹیم کو کام سے روک دیا ۔
ارسلان افتخار نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں سپریم کورٹ کے حکم پر اٹارنی جنرل کی جانب سے تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی ٹیم پر جانبداری کا اظہار کرتے ہوئے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے ۔ اس درخواست کی سماعت دو رکنی بنچ کر رہا تھا ۔ رمضان میں مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے سے ساڑھے چھ بجے تک اس کیس کی سماعت ہو تی رہی ۔
منگل کو سماعت کے موقع پر عدالت میں سپریم کورٹ بلڈنگ کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کی گئی ۔ 12 جون کی اس فوٹیج میں ڈی ایس پی رورل اسلام آبادفیصل میمن کوملک ریاض کے ہمراہ سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں آتے ہوئے دیکھاجاسکتا ہے جبکہ فیصل میمن کی ملک ریاض کے ساتھ ڈیوٹی بھی نہیں تھی ۔سپریم کورٹ نے اس عمل کو بادی النظر مشکو ک قرار دیا اور آئندہ سماعت پر فیصل میمن سے جواب طلب کر لیا ۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ ایسی ٹیم سےتحقیقات کرائی جائیں جو غیر جانبدار ہو، لیکن ان کی تشکیل دی گئی ٹیم میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ملک ریاض کے انگوٹھے کے نیچے ہیں ۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو خط لکھ کر اختیارات سے تجاوز کیا ۔ ملک ریاض کے ادارے میں چیئرمین نیب کی بیٹی کام کرتی رہی لہذا ایسی ٹیم کو کیسے غیر جانبدار کہا جا سکتا ہے ؟
سماعت کے موقع پر ملک ریاض کے وکیل نے کئی اعتراضات بھی اٹھائے ۔ان کاکہنا تھاکہ ارسلان افتخار کو اس فوٹیج سے متعلق پہلے سے کیسے علم تھا ؟فوٹیج دکھانے سے قبل کوئی درخواست پیش نہیں کی گئی اور نہ اس پر بحث ہوئی پھر فوٹیج دکھانے کا کیسے حکم جاری کیاجا سکتا ہے ؟اس فوٹیج کی صحت کاسرٹیفکیٹ بھی نہیں ۔ نیب کی جانب سے استدعا کی گئی کہ اس فوٹیج کے سلسلے میں ارسلان کے وکیل اور عدالت کے مابین ہونے والی خط و کتاب کا ریکارڈ بھی منظر عام پر لا یا جائے ۔
اس سے پہلے نیب کے پروسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے اس کیس کی سماعت کیلئے سات رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی جو مسترد کر دی گئی ۔اس سے قبل اس تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ملک ریاض اور ارسلان افتخار پیش ہوئے تھے لیکن ارسلان نے تحریری بیان جمع نہیں کرایا تھا اور ان کاکہنا تھاکہ کمیٹی پر تحفظات ہیں اور یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے ۔
یاد رہے14 جون کو سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے ملک ریاض ، ارسلان اور سلمان کے خلاف اٹارنی جنرل کو کارروائی کی ہدایت کی تھی ۔ اٹارنی جنرل نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس پر ارسلان افتخار نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
ارسلان افتخار نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں سپریم کورٹ کے حکم پر اٹارنی جنرل کی جانب سے تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی ٹیم پر جانبداری کا اظہار کرتے ہوئے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے ۔ اس درخواست کی سماعت دو رکنی بنچ کر رہا تھا ۔ رمضان میں مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے سے ساڑھے چھ بجے تک اس کیس کی سماعت ہو تی رہی ۔
منگل کو سماعت کے موقع پر عدالت میں سپریم کورٹ بلڈنگ کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کی گئی ۔ 12 جون کی اس فوٹیج میں ڈی ایس پی رورل اسلام آبادفیصل میمن کوملک ریاض کے ہمراہ سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں آتے ہوئے دیکھاجاسکتا ہے جبکہ فیصل میمن کی ملک ریاض کے ساتھ ڈیوٹی بھی نہیں تھی ۔سپریم کورٹ نے اس عمل کو بادی النظر مشکو ک قرار دیا اور آئندہ سماعت پر فیصل میمن سے جواب طلب کر لیا ۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ ایسی ٹیم سےتحقیقات کرائی جائیں جو غیر جانبدار ہو، لیکن ان کی تشکیل دی گئی ٹیم میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ملک ریاض کے انگوٹھے کے نیچے ہیں ۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو خط لکھ کر اختیارات سے تجاوز کیا ۔ ملک ریاض کے ادارے میں چیئرمین نیب کی بیٹی کام کرتی رہی لہذا ایسی ٹیم کو کیسے غیر جانبدار کہا جا سکتا ہے ؟
سماعت کے موقع پر ملک ریاض کے وکیل نے کئی اعتراضات بھی اٹھائے ۔ان کاکہنا تھاکہ ارسلان افتخار کو اس فوٹیج سے متعلق پہلے سے کیسے علم تھا ؟فوٹیج دکھانے سے قبل کوئی درخواست پیش نہیں کی گئی اور نہ اس پر بحث ہوئی پھر فوٹیج دکھانے کا کیسے حکم جاری کیاجا سکتا ہے ؟اس فوٹیج کی صحت کاسرٹیفکیٹ بھی نہیں ۔ نیب کی جانب سے استدعا کی گئی کہ اس فوٹیج کے سلسلے میں ارسلان کے وکیل اور عدالت کے مابین ہونے والی خط و کتاب کا ریکارڈ بھی منظر عام پر لا یا جائے ۔
اس سے پہلے نیب کے پروسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے اس کیس کی سماعت کیلئے سات رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی جو مسترد کر دی گئی ۔اس سے قبل اس تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ملک ریاض اور ارسلان افتخار پیش ہوئے تھے لیکن ارسلان نے تحریری بیان جمع نہیں کرایا تھا اور ان کاکہنا تھاکہ کمیٹی پر تحفظات ہیں اور یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے ۔
یاد رہے14 جون کو سپریم کورٹ نے ارسلان افتخار از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے ملک ریاض ، ارسلان اور سلمان کے خلاف اٹارنی جنرل کو کارروائی کی ہدایت کی تھی ۔ اٹارنی جنرل نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس پر ارسلان افتخار نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔