بعض ماہرین کہتے ہیں کہ فریقین کے بیانات پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان تناؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی روکنے میں ناکامی پر ہی پاکستان نے غیر قانونی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو (یو ایس سی آئی آر ایف) کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں اس تشویش کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے جمعرات کو نگراں و زیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ اہم امور کے علاوہ امریکہ میں آباد کاری کے اہل افغان شہریوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پہلے اُن غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کیا جائے گا جن سے پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو خطرہ ہے۔ وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یکم نومبر سے قانون حرکت میں آئے گا۔
ماہرین کے مطابق ایم ایل ون منصوبے کی تکمیل سے پشاور اور راولپنڈی کے درمیان ریل کے سفر کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔
حکومتِ پاکستان کے مطابق سی پیک کے پہلے مرحلے میں 25 ارب ڈالر سے زائد کی ہونے والی سرمایہ کاری سے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل ہوئے یعنی پاور ہاؤس لگے اور سڑکیں بنائی گئیں جب کہ دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز قائم کیے جائیں گے۔
سینیٹ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد یہ بخار چڑھتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کریں گے تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ لیکن حالیہ معاملے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث دفن ہوگئی ہے۔ مشاہد حسین کی وائس آف امریکہ سے مزید گفتگو دیکھیے اس انٹرویو میں۔
پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکہ شیری رحمان نے اسرائیل-حماس لڑائی پر کہا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ وی او اے کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت نگراں حکومت ہے تو پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے کیوں کہ ہر کیمپ میں آپ کے دوست ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ لڑائی ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے سفارتی رابطے ہو رہے تھے۔ اس لڑائی سے عرب ملکوں کے اسرائیل سے بڑھتے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا اور کیا پاکستان کی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی آئے گی؟ جانیے محمد جلیل کی اس رپورٹ میں۔
پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک بدری کے فیصلے کو تجزیہ کار کیسے دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہ فیصلہ انتظامی ہے یا سیاسی؟ جانیے محمد جلیل کی اس رپورٹ میں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر تشدد کے واقعات سے متعلق کہنا ہے کہ عدلیہ کو آگے آنا چاہیے اور اس طرح کے واقعات میں فوری سماعت ہونی چاہیے۔ مزید گفتگو سنیے اس انٹرویو میں۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں حال ہی میں گرفتار کیے گئے مبینہ عسکریت پسندوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہ رہا ہے انہیں واپس اپنے ملک جانا ہوگا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں غیر مسلم کمیونیٹیز کے لیے 'اقلیت' کا لفظ استعمال نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کے مطابق دنیا میں لفظ اقلیت متروک ہوتا جا رہا ہے چاہے وہ مسلمانوں کے لیے استعمال ہو یا دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لیے۔ تفصیلات دیکھیے محمد جلیل کی اس ویڈیو میں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کہتی ہیں کہ پاک افغان سرحد کی بندش خوشی سے نہیں کی ہے بلکہ افغان بارڈر آفیشل پاکستانی حدود میں ایک غیرقانونی تعمیرات کرنا چاہتے تھے جس سے روکنے پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی۔ مزید تفصیل محمد جلیل اختر کی اس ویڈیو میں۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد 'برکس' کے ساتھ مستقبل میں اپنے رابطوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ، مشرق وسطیٰ کے عرب دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں ٹھہراؤ اور چین کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آئی۔
چینی وزیرِ اعظم ہی لی فنگ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے 10 برس مکمل ہونے پر اتوار کو پاکستان پہنچے تھے۔
اپنے ٹویٹ میں روسی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی معلومات تک رسائی کے حقوق کی خلاف ورزی نا قابلِ قبول ہے ۔ روس کے سفارت خانے کی ٹویٹ میں اس واقعہ کے بعد روسی صحافی رسلان اور ان کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی صحافیوں سے یک جہتی کا بھی اظہار کیا تھا۔
ایران کا ایس سی او کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا معاملہ نہ صرف خطے کے ممالک کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ معاملہ توجہ کا مرکز ہے ۔
بعض مبصرین کی رائے میں سی پیک سے متعلق پاکستانی عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل کر دے گا لیکن یہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔
مزید لوڈ کریں