رسائی کے لنکس

نگراں وزیرِ اعظم کے افغانستان پر الزامات؛ 'پاکستان کا خیال تھا کہ طالبان ہر حکم مانیں گے'


نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ (فائل فوٹو)
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ (فائل فوٹو)

پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت پر الزامات اور افغان طالبان کے سخت ردِعمل کے بعد ماہرین دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید سرد مہری کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ فریقین کے بیانات پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان تناؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی روکنے میں ناکامی پر ہی پاکستان نے غیر قانونی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور اس حوالے سے معلومات بھی طالبان حکومت کو فراہم کی گئی ہیں۔ امید ہے افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ دو سال کے دوران افغان سرزمین سے دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا جن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔‘‘

نگراں وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا کہ افغانستان نے پاکستان مخالف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ پاکستان میں بد امنی پھیلانے والوں میں غیر قانونی تارکینِ وطن ملوث ہیں۔

'امریکی ویزے کے منتظر 25 ہزار افغان باشندوں کو ڈی پورٹ نہیں کریں گے'

نیوز کانفرنس کے دوران نگراں وزیرِ اعظم نے بتایا کہ امریکی ویزے کے منتظر 25 ہزار افغان باشندوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

سن 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکی فوج یا حکومت، عالمی اداروں اور ایجنسیز کے لیے کام کرنے والے ہزاروں افغان باشندے پاکستان آ گئے تھے۔ ان میں انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی بھی شامل تھے۔

ان افراد نے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے ذریعے ویزوں کی درخواست دے رکھی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے ان افراد کی فہرست اُنہیں فراہم کر دی ہے۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے جوناتھن لیلی نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ ہم ویزے کے منتظر افغان باشندوں کے حوالے سے پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی تھی۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سول و فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔

پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں، لہذٰا غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر تنقید کی تھی جب کہ افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کیا تھا۔

نگراں وزیرِ اعظم کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں درجنوں سیکیورٹی اہل کار جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے بیان پر ردِعمل میں کہا ہے کہ پاکستان میں امن کی ذمے داری افغانستان پر عائد نہیں ہوتی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر جاری کیے گئے بیان میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی ناکامیوں کی ذمے داری افغانستان پر نہ ڈالے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔

'یہ بظاہر افغان پالیسی کی ناکامی ہے'

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ طالبان، افغانستان میں اقتدار میں آکر اس کے ہر حکم پر عمل کریں گے اور صرف پاکستان کے ساتھ ہی دوستی رکھیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دو سال گزرنے کے بعد جو حالات ہیں، اس میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان شدید مایوس ہے اور بظاہر یہ پاکستان کی افغان پالیسی کی ناکامی ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی توقعات کے باوجود افغان طالبان ٹی ٹی پی کے مبینہ خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں تحفظات دور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کے ذریعے افغان طالبان کو سخت پیغام دینے کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ ٹی ٹی پی سے متعلق اُن کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کے بقول پاکستان کو عسکریت پسندی کے خلاف جنگ ملک کے اندر خود ہی لڑنی ہو گی۔

'افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی حلیف ہیں'

افغان اُمور کے تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ دونوں گروپ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر خان کا کہنا تھا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مصالحت کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

واضح رہے کہ حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں، اور اس دوران عارضی جنگ بندی بھی ہوتی رہی۔ تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ طالبان حکومت نے اپنے طور پر کوشش کی کہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے معاملات طے پا جائیں، لیکن یہ کامیاب نہیں ہو سکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں اور نوبت ایک دوسرے پر الزام تراشیوں تک پہنچ گئی ہے جس سے لامحالہ بداعتمادی بھی بڑھ رہی ہے۔

طاہر خان کے بقول ایک جانب پاکستان عالمی برادری پر افغان طالبان کے ساتھ مراسم رکھنے پر زور دیتا رہا ہے، لیکن خود اس کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پر طالبان حکومت کے شدید تحفظات ہیں جن کا وہ حکومتِ پاکستان سے برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر مستقبل قریب میں کسی بات چیت کا امکان ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG