رسائی کے لنکس

اسرائیل حماس جنگ: میڈیا 'دہشت گرد' کے لیبل سے گریز کیوں کر رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دہشت گرد کون ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو اسرائیل اور حماس جنگ کے ایک ماہ کے دوران میڈیا کوریج میں موضوعِ بحث رہے ہیں۔

میڈیا میں "دہشت گرد" یا "دہشت گردی" کے الفاظ کے استعمال یا عدم استعمال پر آڈینس کی ناخوشی کا اظہار بنیادی طور پر اس تنازع کی عمومی نیوز کوریج پر ان کی مایوسی اور بے اطمینانی کو ظاہر کرتا ہے۔

بعض اوقات یہ غصہ صحافیوں کے جانب دارانہ یا جنگ میں کسی ایک فریق کے لیے ہم دردی رکھنے پر بھی سامنے آتا ہے۔

اس رجحان کے بارے میں مبصرین کہتے ہیں کہ یہ اس تنازع میں غیر معمولی گہری تقسیم کو اجاگر کرتا ہے- ساتھ ہی یہ رجحان میڈیا کے غیر ارادی طور پر اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے میں کردار کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتا ہے۔

سات اکتوبر کو عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل میں دراندازی کے بعد 1400 سے زائد لوگوں کو قتل اور 200 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا۔ اسرائیل نے اس کا جواب دیتے ہوئے اعلانِ جنگ کیا اور غزہ پر نہ رکنے والی بمباری شروع کی جس میں اب تک 9700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 4000 سے زیادہ بچے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے نائب صدر برائے ادارتی معیارات جان ڈانیشیوسکی کا کہنا ہے کہ اس تنازع پر یہ پہلے بھی بحث و تکرار ہوتی رہی ہے۔ 1990 کی دہائی کے بعد سے ایسوسی ایٹڈ پریس کی تجویز رہی ہے کہ حکام کا براہ راست حوالہ دینے یا براہ راست ان کے بیان نقل کرنے کے سوا "دہشت گرد" اور "دہشت گردی" کے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔

اسرائیل کی زمینی کارروائی: کیا حماس ختم ہو سکے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:13 0:00

انہوں نے کہا کہ سات اکتوبر کے بعد اس اصول میں کوئی استثنیٰ پیدا کرنے پر ادارے میں بحث ہوئی لیکن اے پی نے بالآخر فیصلہ کیا کہ ان اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرنے کی اس کی تجویز برقرار رہے گی کیوں کہ اے پی اسٹائل بک کے مطابق یہ الفاظ "سیاست زدہ ہوچکے ہیں اور ان کا استعمال متضاد طور پر کیا جاتا ہے۔"

جان ڈانیشیوسکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "یہ خاص لفظ اتنا مبہم اور اتنا معنی خیز ہے کہ مختلف لوگوں کی اس بارے میں رائے مختلف ہوسکتی ہے کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں۔"

وی او اے سات اکتوبر کے حملے کو دہشت گرد حملہ کے طور پر بیان کرتا ہے لیکن حماس اور اس کے ارکان کو دہشت گرد کہنے سے گریز کرتے ہوئے ’اے پی‘ کی ادارتی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ امریکی حکومت نے حماس کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کیا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپس نے حماس کے حملے کو انسانیت کے خلاف ممکنہ جرم قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی کارروائیوں کی بھی مذمت کی جس میں پناہ گزین کیمپوں، اسپتالوں اور اسکولوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ اسرائیل نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حماس کے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔

نیو یارک کی بنگھمٹن یونیورسٹی میں نسل کشی اور بڑے پیمانے پر مظالم کی روک تھام کے ادارے کی قیادت کرنے والے میکسم پینسکی کے مطابق بین الاقوامی قانون کے تحت دہشت گردی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ لیکن لفظ "دہشت گرد" پر بحث بڑھ گئی ہے کیوں کہ یہ لفظ "نسل کشی" کی طرح غیرمعمولی سیاسی اور جذباتی وزن رکھتا ہے۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس لفظ میں "بہت زیادہ بیانیے کی قوت اور گہرائی" ہے۔

ڈینجرس اسپیچ پروجیکٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سوزن بینیش کے مطابق لفظ "دہشت گرد" اسرائیلی اہلکاروں اور حماس کے عسکریت پسندوں کی مذمت کے لیے ایک مؤثر طریقے سے شارٹ ہینڈ بن گیا ہے۔ ان کے بقول جب لفظ "دہشت گرد" استعمال کرتے ہیں تو حقیقت میں کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔

اسرائیل حماس جنگ: قطر کا کیا کردار ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:32 0:00

بینیش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس تناظر میں "دہشت گرد" ایک بہتان کی طرح ہے۔ یہ کہنے کا ایک طریقہ ہے کہ کوئی آپ کو مارنا چاہتا ہے۔

اگرچہ بعض لوگ دہشت گرد کو بطور اصطلاح استعمال کرنے سے متعلق میڈیا کی احتیاط پر تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن فلسطینی سیاسی تجزیہ کار نور عودہ کے خیال میں ایسے الفاظ کا استعمال تقسیم مزید گہری کرنے کے خدشات میں اضافہ کرتا ہے۔

رملہ سے انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس درجہ بندی کو اپنانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ جانب دارانہ درجہ بندی ہے۔

ان کے بقول یہ خبروں کو جذبات سے بھر دیتا ہے اور لوگوں کے لیے صرف معلومات کو موصول کرنے اور اپنا فیصلہ خود کرنے کے بجائے برے لوگوں کے مقابلے میں اچھے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا آسان بنا دیتا ہے۔

الجزیرہ کے مغربی کنارے کی سابق نمائندہ نور عودہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام دہشت گرد ہیں یا وہ دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں تو آپ آڈینس کے لیے فوری طور پر یہ آسان بنا دیتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کوئی ہمدردی نہ رکھیں۔

کوریج اور ذاتی تجربات کا ٹکراؤ

ابلاغ اور تشدد کے باہمی ربط پر توجہ مرکوز رکھنے والی تنظیم ’اوور زیرو‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریچل براؤن کے مطابق تنازعات کے دوران کسی اور کے درد کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تنازعات کے دوران جو کچھ ہوتا ہے اس میں لوگوں کے لیے کسی کا صدمہ سمجھنا اس وقت تک مشکل ہوتا ہے جب تک اس کا ادراک نہ کیا جائے اور یہ واقعی ایک خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اور ان کے دکھ درد کا ادراک ہی نہ کرسکے۔

سوزن بینیش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ البتہ تنازع کے بارے میں بیانیہ بنانے میں میڈیا ایک مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن جب یہ بیانیے ان کے ذاتی تجربات سے برعکس نظر آنے لگیں تو لوگ برہم ہوسکتے ہیں۔

ماضی میں صحافی رہنے والی سوزن بینیش نے مزید کہا کہ جیسا کہ اب ہورہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا، اپنے دوستوں اور خاندان والوں کے ذریعے آن لائن حقیقت کے ایک ورژن کے بارے میں جان لیتے ہیں اور پھر اگر وہ خبروں میں ایسا کچھ دیکھتے ہیں جو ان کے مطابق نہ ہو تو وہ غصے میں آجاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "دہشت گرد" کے سوال پر غصہ اس عمل کی ایک مثال ہے۔

نور عودہ کہتی ہیں کہ "یہ ایک ایکو چیمبر کی اپیل ہے۔" وہ اس جملے سے ایسے ماحول کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جہاں کسی شخص کو صرف اپنے خیالات کی تائید میں معلومات یا آرا سنائی دیتی ہوں۔

ان کے بقول اگرچہ "دہشت گرد" کے لیبل سے گریز کرنا تنازع کی بہتر کوریج کے مفاد میں ہے، لیکن میڈیا کے جانب دار ہونے کے دیگر مسائل ہیں جن کے بارے میں نیوز اداروں کو فکر مند ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے خبر رساں ادارے اسرائیلی حکومت کے بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فلسطینی نکتۂ نظر پر اسرائیلی موقف کوترجیح دیتے ہیں۔

اسرائیل حماس جنگ: جنوبی اور وسطی امریکی ممالک اسرائیل کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:02 0:00

سال 2019 کی ایک تحقیق میں اسرائیل-فسلطین تنازع پر 50 سال کی خبروں کی سرخیوں کا تجزیہ کیا گیا، اس تجزیے میں یہ سامنے آیا کہ بظاہر امریکی اخبارات میں فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی ذرائع کا دگنا حوالہ دیا جاتا ہے۔

نور عودہ نے کہا کہ ایک اور مثال جو اس پر پوری اترتی ہے وہ غزہ کی وزارتِ صحت ہے جس کی فلسطینیوں کی اموات سے متعلق فراہم کی گئی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے"حماس کے زیر انتظام" ہونے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں غزہ کی وزارتِ صحت کے اموات سے متعلق اعداد و شمار پر "اعتماد نہیں" ہے۔البتہ ماضی کی جنگوں میں غزہ کی وزارتِ صحت کے ڈیٹا کو بعد میں اقوامِ متحدہ اور آزاد رپورٹس اور یہاں تک کہ اسرائیل کی تفتیش میں بھی مصدقہ قرار دیا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جانب داری سے متعلق خدشات اس منفی کردار کی نشان دہی کرتے ہیں جو میڈیا اس طرح کے بحرانوں کے دوران ادا کرسکتا ہے۔

لوگوں پر مظالم کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'گلوبل سینٹر فار دی رسپانسیبلٹی ٹو پروٹیکٹ' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سویتا پانڈے نے کہا کہ میڈیا معاشرے میں تقسیم کو پروان چڑھانے اور اسے مزید گہرا کرنے میں ایسا کردار بھی ادا کر سکتا ہے کہ جس سے ہولناک اور ظالمانہ جرائم کی راہ ہموار ہوتی ہو۔

ریچل براؤن کے مطابق ان بحرانوں کی میڈیا کوریج پر حکومتوں کے ردِعمل کے مضمرات بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کے بقول الفاظ اور بیانیہ واقعی اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ وہ اس فریم ورک کو تشکیل دیتے ہیں جس میں ہم فیصلے کرتے ہیں اور وہ اس فریم ورک کو تشکیل دیتے ہیں جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے امکانات ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG