بلوچستان کے سرحدی ضلعے چمن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لاگو کیے جانے کے فیصلے کے خلاف چار ماہ سے جاری دھرنے کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
انتخابات کے بعد بلوچستان میں مختلف جماعتیں احتجاج بھی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں ذرائع آمدورفت اور کاروبارِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں مختلف سیاسی جماعتوں احتجاج کر رہی ہیں۔ کوئٹہ سمیت متعدد علاقوں میں سیاسی جماعتوں کی اپیل پر ہڑتال بھی کی جا رہی ہے۔ مزید تفصیلات بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
بلوچستان میں کئی قوم پرست اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات لگا کر احتجاج شروع کر دیا ہے۔ مرتضیٰ زہری کوئٹہ سے مزید تفصیلات بتا رہے ہیں۔
کوئٹہ میں ڈی سی کمپلیکس کے باہر آر اوز کے خلاف، نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزار امیدوار، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار اور کارکن احتجاج کیا۔ ان کا الزام ہے کہ امیدواروں کے انتخابی نتائج میں ردوبدل کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے گھروں، دفاتر، کارنر میٹنگز اور متوقع پولنگ اسٹیشنز پر 40 سے زائد حملے ہوئے تھے۔ حکام کے مطابق بلوچستان کے حساس پولنگ اسٹیشنز کو تحفظ فراہم کرکے کے لیے 50 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ مزید تفصیل مرتضیٰ زہری سے۔
سیکیورٹی فورسز نے کلیئرنس آپریشن مکمل کر کے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سیکیورٹی صورتِ حال کے پیشِ نظر دونوں صونوں کے عوام میں عدم تحفظ کا احساس ہے جس کا اثر پولنگ ڈے میں کم ٹرن آؤٹ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ لیکن بلوچستان میں امیدواروں کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں عوام امیدواروں سے کیا چاہتے ہیں؟ کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور میں پیر اور منگل کی درمیانی شب مسلح افراد کے راکٹ حملوں اور فائرنگ سے حکام کے مطابق پولیس افسر سمیت چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نگراں صوبائی وزیرِ اطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ فورسز نے آپریشن کے دوران کالعدم تنظیم کے پانچ افراد کو ہلاک کیا ہے۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مچھ واقعہ میں سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے تین مربوط حملے ناکام بنا دئیے ہیں۔
بلوچستان کے شہر چمن میں مزدوروں و تاجروں کی جانب سے لگ بھگ تین ماہ سے دھرنا جاری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آمدو رفت لے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیے جانے کے خلاف اس دھرنے کی وجہ سے راستے بند ہیں جس سے ٹرانسپورٹرز شدید متاثر ہیں۔ تفصیلات جانیے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ مزید پسماندگی کی طرف جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اساتذہ کی کمی، منتشر آبادیوں، امن و امان کی خراب صورتِ حال اور سیاسی عدم دلچسپی کے باعث 3500 کے قریب اسکول بند ہو چکے ہیں۔ مزید جانیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
قومی سطح کی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر شامل ہیں۔
بلوچستان حکومت نے چمن سرحد کی بندش کے سبب بے روزگار تاجروں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت چھوٹے تاجروں کی مالی مدد کی جا رہی ہے۔ البتہ تاجر اس اقدام سے مطمئن نہیں۔ سرحد کی بندش اور چمن کے تاجروں کے مطالبات کی تفصیلات بتا رہے ہیں وائس آف امریکہ کے مرتضیٰ زہری اپنی اس رپورٹ میں۔
اسلام آباد میں بلوچ مسنگ پرسنز مارچ کے شرکا کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں طلبہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی اور ہائی کورٹ کے سامنے ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ مزید تفصیلات بتا رہے ہیں مرتضی زہری۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چمن میں پاکستان افغانستان سرحد پر آمد و رفت کو قانونی شکل دینے کے لیے 'ون ڈاکیومنٹ سسٹم' کو ہر صورت ممکن بنایا جائے گا۔
بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی اور سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں بالاچ بلوچ اور دیگر کی ہلاکت کے خلاف ہونے والا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد روانہ ہو گیا ہے۔ بلوچستان حکومت کا مؤقف ہے کہ مارچ کے شرکا کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں، اس کے باوجود مارچ کی اسلام آباد روانگی سمجھ سے بالاتر ہے۔
لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یک جہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے خضدار، قلات اور مستونگ کے بعد کوئٹہ میں داخل ہوتے ہوئے لانگ مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
دھرنے میں مقامی قبائل، سیاسی و مذہبی جماعتیں، مزدور اور تاجر شریک ہیں جو حکومتِ پاکستان کی جانب سے آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں