لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا کا واقعہ زیارت سے 15 کلو میٹر دور ورچوم کے قریب منگل کی شب پیش آیا تھا جب وہ اپنی فیملی کے ہمراہ سفر کررہے تھے۔ اغوا کی ذمے داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان (پی ڈی ایم اے) کے حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ مون سون کی بارشوں کے دوران جانی نقصان کے ساتھ لوگوں کو مالی نقصانات کا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
پولیس کے مطابق موڑ کاٹتے ہوئے بس کئی سو فٹ نیچے کھائی میں گری تھی جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زخمیوں کو ایمبولینسز کے ذریعے ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب منتقل کیا گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کیا ہے جس میں فوجی اہل کاروں کے ہمراہ لیویز فورس کے اہل کار بھی شامل ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ زخمیوں کے علاج کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
گمشاد کی چچا زاد بہن شیرین گوہرام شیرین بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سات جون کی صبح پانچ بجے سیکیورٹی فورسز نے کراچی میں گمشاد کے گھر سے انہیں اس وقت لاپتا کیا جب وہ اپنے دوست دودا بلوچ کے ہمراہ امتحانات کی تیاری میں مصروف تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اگر گوادر میں بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے ایران سے بجلی لاسکیں تو یہ اچھی بات ہوگی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چین کی ایک کمپنی نے گوادر کے 3200 گھرانوں کو سولر پینل بطور تحفہ عطیہ کی ہیں۔
مقامی سطح پر جنگلات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ''عشر تحریک'' کے ایک عہدیدار سالمین خپلواک نے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق بتایا کہ نو مئی کو خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سب تحصیل مغل پور کے جنگل میں آگ لگی تھی ۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پر لاپتا کی جانے والی خاتون بلوچ شاعرہ ہیں۔حبیبہ پیر جان کی صاحبزادی حنا نے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری سے گفتگو میں اپنی والدہ کو لاپتا کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
جام کمال خان نے ایک سوال پر بتایا کہ تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی مگر اب تک نئے قائد ایوان کے نام پر اتفاق نہیں ہوا، اس سلسلے میں اتحادیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہوشاب کے علاقے عرضو بازار میں ایک مکان پر چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے نور جہاں نامی خاتون سمیت دو افراد کو حراست میں لیا تھا۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے عید منانے کے بجائے ان کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے۔
جامعہ کراچی میں خودکش دھماکہ کرنے والی شاری بلوچ کے رشتے دار ان کے اس فعل پر اب تک صدمے میں ہیں جب کہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہری علاقے تربت میں قائم شری بلوچ کے آبائی گھر پر لوگ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ مزید جانیے تربت سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی بم دھماکے میں ملوث خاتون شاری بلوچ ، بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ تھیں اورتربت کے ایک اسکول میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مقامی لوگ یہاں کے وسائل سے محروم ہیں یہاں لوگوں کی بڑی تعداد یا تو کھیتی باڑی کرتی ہے یا ان کا روزگار بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے۔ مگر، انھوں نے الزام لگایا کہ ''اب اس سرحدی کاروبار کو بھی بلوچستان کے لوگوں کے لیے غیر محفوظ بنا دیا گیا ہے''۔
سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ ان کے اہل کاروں نے 15 مارچ کو دو پہر 2 بج کر 30 منٹ پر حفیظ بلوچ کو جعفرآباد کے علاقے سیف آباد کے گوٹھ محمد مٹھل سے گرفتار کیا تھا۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ضلع کیچ سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کرنے والے سماجی کارکن 23 دن بعد اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ کئی سو کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنے والے گلزار بلوچ سے ملوا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب سبی کا 4 روزہ روایتی میلہ جاری تھا اور پاکستان کے صدر عارف علوی بھی میلے کے اختتامی تقریب کے سلسلے میں سبی میں موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق دھماکہ سبی میں اندرون شہر ٹھنڈی سڑک کے قریب ہوا ہے۔
مزید لوڈ کریں