Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
مزدوروں اور دیگر متعلقہ افراد کے لیے حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں لورالائی اسکاؤٹس کا دستہ اتوار کی شام اس علاقے کی طرف روانہ کیا گیا تھا جس پر یہ حملہ کیا گیا۔
’’مو یشیوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ لگنے والی سر حدوں کو سیل کیا جائے ۔‘‘
گوادر کو صرف تین ماہ کے لیے صوبے کا سر مائی دارالحکومت قراردیا گیا ہے اس لیے صوبائی حکومت کے تما م محکموں کو فوری طور پر وہاں منتقل نہیں کیا جارہا ۔
کئی نوجوانوں نے تربیت مکمل کرنے کے بعد پھتر کی تراش خراش کے لیے مشینیں خرید کر خود اپنا کارروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔
گرفتاری کے احکامات اب وفاقی حکومت کو بھیجے جائیں گے تاکہ ملزمان کی عدالت میں پیشی کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
ضلع ہرنائی میں ایک تنصیب پر کام کی معطلی سے مقامی افراد کے ذریعہ معاش کو بھی دھچکا لگا ہے۔
استاد محقق نے کہا کہ اُن کے پاکستان کے دورے کا بنیادی مقصد افغانستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ ’’اگر وہ یہ امید رکھیں گے کہ ہاتھ میں کلاشنکوف بھی ہو گی اور بات کریں گے، تو یہ ممکن نہیں۔‘‘
صوبہ بھر کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر اپنے ایک سینیئر ساتھی مزار خان بلوچ کے گزشتہ ہفتے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ بلوچستان سے کی گئی زیادتیوں کے ازالے کے لیے پہلے قدم کے طور ایسے قیدیوں کو رہا کیا گیا جو گھناؤنے جرائم میں ملوث نہیں تھے۔
صوبے میں گزشتہ تین سالوں کے دوران مشتبہ بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں دو درجن سے زائد اساتذہ اور ماہرین تعلیم ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس حامد شکیل نے بتایا کہ یہ واقعہ اختر آباد کے علاقے میں پیش آیا جہاں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک بس کو روک کر اس میں موجود مسافروں کو پہلے زبردستی نیچے اتارا اور پھر ان پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
پاکستان پیڈریاٹک ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بچوں کی اکثریت حفاظتی قطروں اور ٹیکوں سے صرف اس لیے محروم رہ جاتی ہے کیوں کہ طبی عملہ امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے تیار نہیں۔
قوم پرست بلوچ رہنما اختر مینگل اور نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمالک بلوچ نے جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم کی طر ف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں احتجاجاً شر کت نہیں کی۔
حکام کے مطابق کمپنی علاقے میں ڈیڑھ ماہ سے کام کر رہی ہے اور اس سے قبل بھی کمپنی کے کیمپ پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا
اس واقعہ میں 26 افراد کی ہلاکت کے خلاف بدھ کو کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں اقلیتی شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے مظاہرے بھی کیے۔
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن نذیر احمد کُرد کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی حملوں کے محرکات جاننے کے لیے اپنا کام شروع کردیا ہے۔
یہ حملہ ایک خودکش بمبار کی کارروائی تھی جس کا ہدف قریبی عیدگاہ میں موجود نمازی تھے۔لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ سخت چیکنگ کے باعث حملہ آور اصل ہدف تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
کوئٹہ ایکسپریس جونہی ایک سرنگ سے نکلی تو پہاڑوں میں موجود نامعلوم افراد نے اس پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
ہڑتال کے موقع پر پو رے صوبے بالخصوص صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
مزید لوڈ کریں