پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان جھڑپ میں ایک افسر سمیت 14 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
حکام نے بتایا ہے کہ ضلع موسیٰ خیل کی بالول بستی میں کان کنی کے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کرنے والے مزدوروں اور دیگر متعلقہ افراد کے لیے حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں لورالائی اسکاؤٹس کا دستہ اتوار کی شام اس علاقے کی طرف روانہ کیا گیا تھا لیکن بستی سے چند کلومیٹر دور گھات میں بیٹھے مسلح افراد نے راکٹوں اور خود کار ہتھیاروں سے اس پر حملہ کر دیا۔
ایف سی کے ایک ترجمان نے مقامی لوگوں کی معاشی و تعلیمی ترقی کے سلسلے میں بھیجے گئے فوجی قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے دشمن کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
ترجمان کے بقول صوبے کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے دشمنوں کو ان کے مذموم ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور نہ ہی ایسی تخریبی کارروائیاں بلوچستان کے لوگوں کی معاشی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں میں رکاوٹ بنیں گی۔
گزشتہ ستمبر میں بھی ہرنائی کے علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام کرنے والی ایک کمپنی کے کیمپ پر نا معلوم افراد نے حملہ کر دیا تھا جس میں ایف سی کے دو اہلکار ہلاک اور کمپنی کے تین ملازمین زخمی ہو گئے تھے، اس واقعے کے بعد علاقے میں تیل وگیس کی تلاش کا کام کرنے والی کمپنی نے اپنا کام بند کر دیا تھا جو تاحال بند ہے۔
مقامی حکام کے مطابق بالول موسی، کوہلو اور دُکی کے سنگم پر واقع ہے اور اس علاقے میں مری قبائل کے لوگ رہتے ہیں جو زیر زمین قدرتی ذخائر کو بروئے کار لانے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔
دو روز قبل بلوچستان کے ضلع سوئی میں سڑک میں نصب ایک ریموٹ کنٹرول بم سے کیے گئے دھماکے میں بھی ایف سی کے دو اہلاکار ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں ان پرتشدد کارروائیوں میں بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں ملوث ہیں جنھیں مبینہ طور پر بیرونی حمایت حاصل ہے۔
حکام کا ماننا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کی سربراہی کرنے والے براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری لندن اور سوئٹزرلینڈ سے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔