بدھ کو کوئٹہ کے علاقے بلبلی میں پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں کے ٹرک پر خود کش حملے میں ایک اہل کار ہلاک سمیت تین افراد ہلاک جب کہ 25 زخمی ہو گئے تھے۔ ٹی ٹی پی نے واقعے کے فوری بعد اس کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔
پختونخوا ملی پارٹی جسے پی کے میپ بھی کہا جاتا ہے، کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حالیہ دنوں میں پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں کو 'پارٹی لائن سے انحراف اور سازش' کے الزامات کے تحت پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس اقدام کے باعث پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
بی این اے نے رواں برس جنوری میں اپنے قیام کے چند روز بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرکے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
مظاہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اگر واقعی سوات میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی واپسی ہوئی ہے تو کس معاہدے کے تحت انہیں واپس آنے دیا گیا ہے؟
جوہی کے گردونواح میں کئی علاقے جزیروں میں تبدیلی ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں چلنے والی ویگن سروس اورچنگچی رکشوں کی جگہ کشتیوں نے لے لی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں بے یقینی بڑھے گی کیوں کہ داعش خراسان شدت سے یہ پراپیگنڈا کررہی ہے کہ طالبان حکومت الظواہری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے یا طالبان اس حملے میں ملوث ہیں۔
دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت اب تک تسلیم نہیں کی۔ ان حالات میں طالبان چین کی سرمایہ کاری اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔
ماہرین کے مطابق افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا بلکہ اُنہیں یہ اعتماد بھی ملا ہے کہ جس طرح افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاملہ کیا، اسی طرح وہ بھی حکومتِ پاکستان کو مجبور کر سکتے ہیں۔
صحافی اسد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مکران ڈویژن میں ماضی کے انتخابات میں لوگوں کا انتخابی عمل میں حصہ لینے کا تناسب کافی کم تھا مگر اس مرتبہ اس ٹرن آؤٹ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد تحقیقات کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مبینہ خواتین عسکریت پسندوں کو تلاش کر رہے ہیں جو مستقبل میں خود کش حملے کرنے یا ان حملوں میں سہولت کار بن سکتی ہیں۔
ماضی میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اوربلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ’پاکستان کوسٹ گارڈز‘ کے اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
اہم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت ماضی میں بی ایس او آزاد سے وابستہ رہی ہے- بلوچ لبریشن آرمی کے ایک دھڑے کے سربراہ بشیر زیب اور'بلوچ لبریشن فرنٹ' کے سربراہ اللہ نذر بلوچ زمانہ طالبِ علمی میں بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
منگل کو کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ کی وین کے قریب خودکش دھماکے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔ کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور پاکستان کے مخالف شدت پسند گروہ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
پا کستان کا دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ اس حوالے سے بھارت پر ان کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن بھارت اس طرح کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا ہے۔
بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی حالیہ کارروائیوں کے بعد ملک میں یہ بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے کہ کیا افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلا اور طالبان حکومت کے کنٹرول کے بعد پاکستان میں کالعدم تنظیمیں زیادہ مضبوط اور فعال ہو گئی ہیں۔
تاجر رہنما کے مطابق بھتے کی رقم کا تقاضا اوسطاً پانچ لاکھ سے دو کروڑ روپے کے درمیان ہوتا ہے جو بات چیت کرنے سے کم بھی ہوسکتا ہے اور رقم کی ادائیگی سے انکار کی صورت میں گھروں پر حملے ہوتے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق ہفتے کی شب ٹیکساس کے شہر کولیویل میں 44 سالہ برطانوی نژاد پاکستانی شہری ملک فیصل اکرم نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ بعد ازاں وہ پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا، جب کہ یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا۔
محمد خراسانی کا اصلی نام محمد علی بلتی تھا جو خالد خراسانی کا نام بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع گھانچے کی وادی چوربٹ سے تھا۔ ان کی عمر 40 سے 45 سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
مزید لوڈ کریں