رسائی کے لنکس

افغانستان میں داعش خراسان کس طرح خطرہ ثابت ہو رہی ہے؟


 داعش خراسان افغانستان کے شمالی علاقوں بلخ، کندوز، تخار اور مزار شریف میں کارروائیاں کررہی ہے جہاں وہ گزشتہ برس اگست سے قبل زیادہ فعال نہیں تھی۔ (فائل فوٹو)
داعش خراسان افغانستان کے شمالی علاقوں بلخ، کندوز، تخار اور مزار شریف میں کارروائیاں کررہی ہے جہاں وہ گزشتہ برس اگست سے قبل زیادہ فعال نہیں تھی۔ (فائل فوٹو)

افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد ماہرین کے مطابق عالمی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ مقامی گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان (آئی ایس کے پی) یا داعش خراسان ایک مضبوط عسکری قوت کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت نے داعش خراسان کو مزید جنگجو بھرتی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایمن الظواہری کو امریکہ پر 2001 میں ہونے والے نائن الیون حملوں کا مرکزی منصوبہ ساز قرار دیا جاتا تھا۔

طالبان الظواہری کی ہلاکت کا باعث بننے والے ڈرون حملے کو بین الاقوامی قوانین اور امریکہ کے ساتھ گزشتہ برس ہونے والے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے چکے ہیں۔ فروری 2020 میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں طالبان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں موجود غیر ملکی جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکیں گے۔ امریکہ طالبان پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔

دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں بے یقینی بڑھے گی کیوں کہ داعش خراسان جیسی شدت پسند تنظمیں یہ پراپیگنڈا کررہی ہیں کہ طالبان حکومت الظواہری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے یا طالبان اس حملے میں ملوث ہیں۔

’داعش خراسان طالبان کو کمزور دکھانا چاہتی ہے‘

داعش خراسان اور اس کے جہادی پراپیگنڈے پر تحقیق کرنے والی اطالوی محقق ریکارڈو والے کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں داعش خراسان نے پورے افغانستان میں خاص طور پر طالبان قیادت، ان کے حامیوں اور شیعہ برادری پر حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ داعش خراسان افغانستان کے شمالی علاقوں بلخ، کندوز، تخار اور مزار شریف میں کارروائیاں کررہی ہے جہاں وہ گزشتہ برس اگست سے قبل زیادہ فعال نہیں تھی۔

گزشتہ برس اگست میں داعش خراسان نے کابل میں شیعہ کمیونٹی پر حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ ماہرین کے مطابق ایسے حملے کابل کے نئے حکمرانوں کی قیامِ امن اور انتظامی صلاحیتوں کو چیلنج کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے منسلک سینئر ماہر اسفندیار میر کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران داعش خراسان افغانستان اور پاکستان میں طالبان کو مسترد کرنے والے عناصر اور اس کے علاوہ ایسے گروہوں سے بھی لوگ اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب رہی ہے جن سے طالبان عالمی دباؤ کی وجہ سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔

تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ داعش خراسان طالبان کو کمزور دکھانا چاہتی ہے اور اس کی سرحد پار کارروائیوں کا مقصد خطے کے ممالک سے طالبان کے نازک تعلقات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔

طالبان کی اہلیت پر سوال

افغان انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ داعش خراسان خطے میں اپنے اسٹرٹیجک منصوبے کے تحت یہ ظاہر کررہی ہے کہ کس طرح ایغور، بلوچ اور ازبک جیسے مختلف نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے اس کی حالیہ کارروائیوں اور خود کُش حملوں میں آلہ کار بنے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ داعش خراسان خود کو ایک کثیر قومی جہادی گروپ کے طور پر پیش کررہی ہے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اس بارے میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی تشویش کا شکار ہیں۔

اسفند یار میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش خراسان نے پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں کے قریب اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ تینوں ممالک کی حکومتیں اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر ان سرگرمیوں سے ہوشیار ہوچکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سرگرمیوں نے داعش خراسان سے نمٹنے کی طالبان کی اہلیت و صلاحیت پر سوال کھڑا کردیا ہے جب کہ طالبان میں گروہ بندی کے خدشات کو بھی تقویت ملی ہے۔ اس کے باوجود خطے کی سطح پر اس تنظیم کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی مربوط ردّ عمل نظر نہیں آیا ۔

رواں برس جولائی کے وسط میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ داعش خراسان افغانستان کو 'عظیم خلافت' کے قیام کے لیے ایک مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کو افغانستان میں موجود ایغور مسلح تنظیم ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) سے تعلق رکھنے والے 50 عسکریت پسندوں کو بھاری ماہوار تنخواہوں پر اپنے ساتھ ملانے میں کامیابی مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ داعش خراسان نے بدخشان میں ٹی آئی پی کے آپریشنل کمانڈر کو بھی شمولیت کے لیے دعوت دی تھی لیکن کمانڈر نے اس سے انکار کردیا تھا۔

چین ٹی آئی پی کو اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں بے چینی کا ذمے دار قرار دیتا ہے اور اس کے پرانے نام ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) ہی سے اس تنظیم کا حوالہ دیتا ہے۔

داعش خراسان کے اہداف

رواں برس جولائی کے آخر میں افغانستان اور اس کے پڑوسیوں سمیت تقریباً 30 ممالک کے مندوبین نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں افغانستان پر ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

اس کانفرنس میں شریک پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک عہدے دار کے مطابق داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی قوت اور طالبان کے اس سے مقابلے کی صلاحیت پر پڑوسی ممالک کے خدشات اس کانفرنس میں گفتگو کا مرکزی نقطہ رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش خراسان خطے میں اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل منصوبوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دیتی آئی ہے۔ چاہے ان میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبے ہوں یا افغانستان کو ازبکستان اور پاکستان سے مربوط کرنے والا مجوزہ منصوبہ۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کھربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا ایک منصوبہ ہے جس میں کئی ممالک شامل ہیں۔ تاہم اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قرضوں کا جال ہے اور چین اس منصوبے کے ذریعے سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے اسلام آباد سے ایاز گل نے بھی معاونت کی ہے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG