رسائی کے لنکس

افغانستان پر کنٹرول کا ایک برس: 'طالبان نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی پاکستان کو اُمید تھی'


افغان طالبان نے جب گزشتہ برس 15 اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تو پاکستانی حکام اور عوامی حلقوں میں جشن کا سا سماں تھا، یہاں تک کہ اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ افغان عوام نے اب 'غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔' افغانستان میں بھارت کے قونصل خانوں کی بندش اور اس کے اثرورسوخ کے خاتمے پر بھی پاکستان میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ افغان طالبان پاکستان نواز ہیں اور وہاں اُن کی حکومت قائم ہونے سے ایک بار پھر پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں برتری حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستانی حکام کو یہ بھی توقع تھی کہ افغانستان میں روپوش کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے نمٹنا اب اُن کے لیے قدرے آسان ہو گا۔

پاکستان نائن الیون کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کو اپنے مفادات سے متصادم قرار دیتا رہا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ رہا۔ پاکستان ان حکومتوں پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے ایما پر پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو کارروائیوں پر اُکساتے ہیں۔ مذکورہ افغان حکومتیں پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہیں۔

راولپنڈی میں افواجِ پاکستان کے ہیڈکوارٹرز سے لے کر اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں میں اس اُمید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ افغان طالبان کے اچانک اقتدار میں آنے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا اور اس سے لامحالہ ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی۔

لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ایک برس مکمل ہونے کے بعد بعض ماہرین کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان سے جو اُمیدیں قائم کی تھیں، وہ پوری نہیں ہو سکیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا بلکہ اُنہیں یہ اعتماد بھی ملا ہے کہ جس طرح افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاملہ کیا، اسی طرح وہ بھی حکومتِ پاکستان کو مجبور کر سکتے ہیں۔

ایک برس کے دوران ٹی ٹی پی کارروائیوں کے باعث پاکستانی فورسز اور فضائیہ نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس سے پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں بھی سرد مہری آئی۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر کلاڈ راکسسٹس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات بہت جلد عیاں ہو گئی تھی کہ افغان طالبان کی پاکستانی طالبان کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور ان کے رہنماؤں کے مابین قریبی تعلقات افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات میں دراڑ ڈال رہے ہیں۔

اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک برس سے پاک، افغان سرحد پر تناؤ ہے اور پاکستان کے 25 برس سے اتحادی سمجھے جانے والے افغان طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات میں فی الحال گرم جوشی نہیں ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ڈیورنڈ لائن پر پاکستانی فوج کی جانب سے نصب کی جانے والی باڑ اُکھاڑنے کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں۔ بعض افغان طالبان رہنماؤں کی جانب سے یہ بیانات بھی سامنے آئے تھے کہ وہ اس باڑ کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔

کالعدم تحریکِ طالبان کی کارروائیوں میں تیزی

ٹی ٹی پی لگ بھگ 14 برس سے پاکستان میں منظم ہے۔ اس نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کے علاوہ قبائلی اضلاع میں فوج کی موجودگی کو جواز بناتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کئی کارروائیاں کی ہیں۔ ان کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکاروں سمیت عام شہری بھی نشانہ بنے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سن 2020 کے وسط تک ٹی ٹی پی پاکستانی فورسز کے کریک ڈاؤن اور افغانستان میں اس کی قیادت پر ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے کمزور ہوئی تھی۔ اسی عرصے کے دوران تنظیم کے اندر دھڑے بندی کے باعث بعض رہنما سرحد سے ملحقہ افغان علاقے کنڑ اور ننگرہار چلے گئے تھے۔

بعض مبصرین کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ منظم ہونے کا حوصلہ دیا۔ جولائی 2020 کے بعد ٹی ٹی پی کے 2014 میں الگ ہونے والے دھڑے دوبارہ متحد ہوئے جب کہ پاکستان میں القاعدہ کا حصہ رہنے والے بعض افراد بھی ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے۔

اس موقع پر ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے یہ دلیل دی کہ پاکستان کے خلاف 'جہاد' صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب تنظیم متحد ہو۔ اسی طرح جس طرح افغان طالبان نے متحد ہو کر امریکہ کا مقابلہ کیا۔

پانچ جولائی کی سیکیورٹی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان ایسی تنظیم ہے جس کے افغانستان میں تین سے چار ہزار جنگجو ہیں۔ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد جیلوں سے رہا ہوئے۔

سیکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مفتی نور ولی محسود کی تنظیم کو متحد کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ٹی ٹی پی مضبوط ہوئی ہے اور یہ خطے میں ایک بار پھر بڑا خطرہ بن کر اُبھر رہی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ٹی ٹی پی سب سے زیادہ فائدہ میں رہنے والی غیر ملکی شدت پسند تنظیم ہے۔

حملوں میں اضافہ اور بھتہ خوری

رپورٹس کے مطابق کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈٰیز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2020 کے مقابلے میں 2021 میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 42 فی صد اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں ٹی ٹی پی کے 87 حملوں میں پاکستان میں 158 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 2020 کے مقابلے میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں 84 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔

رپورٹ کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں نے 2021 میں 63 حملے کیے جن میں 72 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ 2022 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران سیکیورٹی اداروں دہشت گردوں کا ہدف رہے۔

انتیس جولائی کو پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 434 حملے کیے گئے جن کا ہدف سیکیورٹی ادارے تھے۔ ان میں سے 247 حملے افغانستان سے ملحقہ صوبہ خیبرپختونخوا میں کیے گئے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر پولیس افسر شاہ (فرضی نام)نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ایک طرح سے ٹی ٹی پی کا نیا جنم ہوا ہے اور اس کے حملوں میں تیزی آ رہی ہے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے ڈائلنگ کوڈ سے ٹی ٹی پی پاکستانی تاجروں اور اراکینِ پارلیمنٹ سے بھتہ وصول کرتی رہی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے 25 جولائی کو ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ خیبرپختونخوا کے سابق گورنر نے اپنے تحفظ کے عوض ٹی ٹی پی کو 75 لاکھ روپے بھتہ دیا۔

افغان طالبان کا کارروائی سے گریز

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد اسلام آباد نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی سے روکیں۔ لیکن افغان طالبان نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنے معاملات طے کرے۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شامل ایک مذہبی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی ہو یا ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، یہ القاعدہ کی قیادت میں بننے والے ایک بڑے جہادی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ اسی نیٹ ورک نے افغانستان کے مختلف علاقوں کے کنٹرول کے لیے افغان طالبان کی مدد کی تھی۔

افغان طالبان کی مدد سے مایوس ہو کر پاکستانی فضائیہ کی جانب سے افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں کنڑ اور خوست میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بمباری کی بھی رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں خواتین اور بچوں سمیت 47 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی حکومت نے اس کارروائی کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی، لیکن افغان طالبان نے اس پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کابل میں پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

گو کہ ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان نے جون میں غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک، افغان سرحد پر تناؤ برقرار ہے۔

پروفیسر کلاڈ راکسسٹس کہتے ہیں کہ یہ کمزور معیشت والے ملک پاکستان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ جو ملکی معیشت کے استحکام کے لیے غیر ملکی قرض کا خواہاں ہے۔

اُن کے بقول اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افغان طالبان کی حمایت، پاکستان کی غلط پالیسی تھی۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG