رسائی کے لنکس

کراچی دھماکہ: ذمے داری قبول کرنے والی 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' کب اور کیسے بنی؟


ماضی میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی اوربلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ’پاکستان کوسٹ گارڈز‘ کے اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔(فائل فوٹو)
ماضی میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی اوربلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ’پاکستان کوسٹ گارڈز‘ کے اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔(فائل فوٹو)

پاکستان کے شہر کراچی میں جمعرات کی شب بم دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ’سندھو دیش ریولوشنری آرمی‘ (ایس آر اے) نامی کالعدم سندھ علیحدگی پسند تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں ہونے والے اس دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے جب کہ متعدد گاڑیاں بھی تباہ ہوگئی تھیں ۔ کراچی میں تین ہفتوں کے دوران دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے جس کی ذمے داری 'ایس آر اے' نے قبول کی ہے۔

دھماکے کے مقام پر ’پاکستان کوسٹ گارڈز‘ کی ایک گاڑی موجود تھی جس کی وجہ سے سمجھا جا رہا تھا کہ حملے کا نشانہ پاکستان کوسٹ گارڈز تھے۔

ماضی میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اوربلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ’پاکستان کوسٹ گارڈز‘ کے اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

دھماکے کے چند ہی گھنٹے کے بعد ’سندھو دیش ریولوشنری آرمی‘ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا کہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے دھماکے کا ہدف 'پاکستان کوسٹ گارڈز' کی گاڑی ہی تھی۔

ایس آر اے کے دعوے کے باوجود کراچی ضلع جنوبی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس شرجیل کھرل نے میڈیا کو بتایا کہ کوئی ادارہ یا مخصوص گاڑی اس بم دھماکے کا ہدف نہیں تھی۔

ایس آر اے کے ترجمان سوڈھو سندھی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ریاستِ پاکستان اور چینی حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ساحلی پٹی کی زمینوں، بندرگاہوں اور جزیروں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ سندھیوں کو اُن کی اپنی ہی زمین پر اقلیت میں تبدیل کر کے باہر سے لوگوں کو آباد کر کے اُنہیں روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔

خٰیال رہے کہ حکومتِ پاکستان ماضی میں ایسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صوبے میں شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کا فائدہ مقامی آبادی کو بھی ہو گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے 26 اپریل کو ایک خود کش حملے میں کراچی یونیورسٹی میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ اس حملے میں شاری بلوچ نامی ایک خاتون خود کش حملہ آور کو استعمال کیا گیا تھا۔

صدر میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد وزیرِ اعلٰی سندھ کی زیرِ صدارت سول اور عسکری افسران پر مشتمل سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس دھماکے کے بعد امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کراچی دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کا پتا چلانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مشاورت سے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مربوط بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' کب اور کیوں بنی؟

'ایس آر اے' سندھ کی سطح پرفعال ایک زیرِ زمین کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ہے جس پرحکومت پاکستان نے مئی 2020 میں تخریب کاری اور ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔

ایس آر اے کے ساتھ ساتھ سندھ کی دو دیگر تنظیمیں سندھو دیش لبریشن آرمی نامی زیرِ زمین علیحدگی پسند تنظیم اور سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ اریسر پربھی پابندی لگا دی گئی تھی۔

’ایس آر اے‘ نے 2013 میں کراچی میں چینی سفارت خانے کے باہر ایک دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینئرز کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہل کاروں پر حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔ دسمبر 2020 میں کراچی میں دو چینی باشندوں پر حملوں میں بھی حکام کی جانب سے ایس آر اے کو ملوث قرار دیا گیا تھا۔

سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق 'ایس آر اے' پہلے ہی سے فعال علیحدگی پسند گروہ سندھودیش لبریشن آرمی(ایس ایل اے) سے قیادت کے مسئلے پرعلیحدہ ہوکرقائم ہواہے۔

چھبیس اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کو لانے والی وین کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
چھبیس اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کو لانے والی وین کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان کے بقول ’’ ایس آر اے کی قیادت جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم)کے ایک سابق رہنما سیداصغرشاہ المعروف سجاد شاہ کررہے ہیں کاتعلق لاڑکانہ سے ہے جب کہ جسمم اوران سے جڑی 'سندھ لبریشن آرمی' کی سربراہی شفیع برفت کررہے ہیں جوجرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر وفاقی وزارتِ داخلہ مارچ 2013 میں جسمم پر پاپندی عائد کرچکی ہے اورشفیع برفت کا نام مطلوب دہشت گردوں کے کوائف پرمشتمل ریڈ بک میں شامل کیا گیا ہے۔

گزشتہ برس شائع ہونے والی ریڈ بک کے نئے شمارے میں سید اصغر شاہ کے ساتھ ساتھ ایس آر اے کے دیگر تین رہنماؤں محمد حنیف عرف بلوبادشاہ، سجاد علی منگیجو عرف سجاد اور معشوق قنبرانی عرف اوشاق سندھی کو ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔

ریڈ بک میں سید اصغرشاہ کو صوبے بھر میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کا ماسٹرمائنڈ قرار دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ ایس آراے کی جانب سے اگست 2020 میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں جماعتِ اسلامی کی کشمیر ریلی اور جون 2020 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں احساس پروگرام کے دفتر پرتعینات رینجرزاہلکاروں بھی حملے کیے گئے تھے۔

اصغر شاہ 2005 میں گرفتار ہوئے اور پانچ سال کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی جس کے بعد انہوں نے جسمم چھوڑ کراپنا گروپ بنانے کا فیصلہ کیا۔

ایس آر اے اورایس ایل اے جیسی پرتشددعلیحدگی پسند تنظیمیں اپنے آپ کو جئے سندھ تحریک کے بانی اورممتازسندھی قوم پرست دانشورغلام مرتضی سید المعروف جی ایم سید کے نظریات کی پیروکاری سے جوڑتی ہیں۔ مگراسی سوچ وفکر سے وابستہ جمہوری جدوجہدپر یقین کرنے والے دھڑے کہتے ہیں کہ جی ایم سید کی تحریک شروع ہی سے عدم تشدد کی حامی رہی ہے۔


بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ اتحاد

سیکیورٹی افسران اورماہرین سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دراصل ایس آر اے کا بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) میں شمولیت سے جوڑ رہے ہیں۔

بلوچستان میں فعال تنظیموں نے پاکستان میں چین کے مفادات خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نشانہ بنانےکے لیے 'براس' نامی اتحاد قائم کیا تھا جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔

بعد ازاں ایس آرا ے نے بھی جولائی 2020 میں 'براس' سے اتحاد کیا تھا۔

ماضی میں ایس ایل اے اورایس آر اے بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں سے متاثرہو کر حیدرآباد، کوٹری، جامشورو اوردادو سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنوں اور ریلوے ٹریکس کو بم دھماکوں سے اُڑانے جیسی کارروائیاں کرتے تھے۔

سی ٹی ڈی کے سینئر اہلکار کے بقول "ایس آر اے کی حالیہ کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ براس میں شامل ہونے کے بعد انہیں فنڈنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی تربیت بھی دی گئی۔"

براس میں شمولیت کے بعد 2020 کے آخری مہینوں میں ایس آر اے کی جانب سے دو چینی باشندوں اوررینجرز اہلکاروں پرحملے کے واقعات کے بعد صوبے بھر میں ایس آراے کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی سالانہ رپورٹ میں بھی ایس آر اے کے حملوں میں تیزی کی وجہ ان کا براس سے اتحاد قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ـ"کراچی میں پچھلے سال بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے کیے گئے دہشت گردی کے حملوں میں ایس آراے اور براس کے اہم رکن اور بی ایل اے کے مابین بڑھتے ہوئے تعلق کو دیکھا گیاہے۔"

مارچ 2021 میں سی ٹی ڈی کراچی کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پرحملوں میں ملوث ایس ایل اے کے دو مبینہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے علاقے سعدی ٹاؤن سے گرفتار دونوں افراد بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کو اسلحے کی فراہمی میں ملوث تھے۔

کراچی میں سیکیورٹی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی فراز خان نے وائس آف امریکہ کوبتایاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایس آر اے گزشتہ کئی برسوں سے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

ان کے بقول ’’ماضی میں ریلوے ٹریکس کو نشانہ بنانے والی ایس آر اے اب قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے مشکل اہداف کونشانہ بنارہی ہے جس سے یہ لگتاہے کہ براس میں جانے کے بعد ان کے کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘‘

'خاندان کے کسی فرد کو اندازہ نہیں تھا کہ شاری بلوچ یہ کر گزرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00


پنجابیوں اور پختونوں پرحملے

ایس آر اے کی پچھلے سال صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں خفیہ انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ میں یہ گیا ہے کہ یہ علیحدگی پسند تنظیم دیہی سندھ کے مختلف اضلاع میں آباد پنجابیوں اورپختونوں پربھی حملے کررہی ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی جاتی رہی ہے۔

پچھلے سال نومبر 2021 میں ضلع قنبر شہداد کوٹ کے علاقے لالو رانک میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پاکستان تحریکِ انصاف کے قومی اسمبلی کے سابق امیدوار رانا سخاوت راجپوت کو قتل کیا گیا ہے جن کے قتل کی ذمہ داری ایس ایل اے نے قبول کرتے ہوئے ’’سندھ میں آباد سیٹلرز کو صوبہ چھوڑنے‘‘ کی دھمکی دی تھی۔

وائس آف امریکہ کو حاصل ہونے والی اس انٹیلی جنس رپورٹ کی نقل کے مطابق یہ رپورٹ لاڑکانہ ڈویژن کے سیکیورٹی حالات کے حوالے سے مرتب کی گئی تھی جسے محکمہ داخلہ سندھ کو بھجوایا گیا۔

اس رپورٹ میں درج فہرست کے مطابق لاڑکانہ، قنبر، دادو اوردیگراضلاع میں ہوٹل مالکان، مزدور اورموچیوں سمیت متعدد افراد ایس ایل اے کی جانب سے لسانی بنیادوں پرہونے والی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔

خیال رہے کہ ماضی میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے میں پنجابی بولنے والے باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہی ہے۔

پی آئی پی ایس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایس آر اے اپنی پرتشدد سرگرمیوں کے باعث 2021 میں واحد علیحدگی پسند پرتشدد گروہ کے طورپرابھرکرسامنے آیاہے جو سیکیورٹی اہلکاروں، ریلوے ٹریکس اور سیٹلرز (غیرمقامی افراد) پرحملوں میں ملوث رہا۔

جئے سندھ تحریک کیا ہے؟

سیاست، مذہب، صوفی ازم، سندھی قوم پرستی اور ثقافت کے موضوعات پردرجنوں کتابوں کے مصنف، ادیب اوردانشور جی ایم سید نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے 1943 کو اس وقت کی برطانوی حکومت کی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کے لیے قرارداد پاکستان پیش کرکے بھاری اکثریت سے منظور کرائی۔ انہی کی ہی کاوشوں کی بدولت تقسیم ہند کے دوران سندھ نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔

بعد میں قرارداد پاکستان کے تحت سندھ کو خودمُختاری نہ ملنے، سندھی زبان کو نظرانداز کیے جانے، ون یونٹ کے نفاذ، ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو بڑے پیمانے پر سندھ میں آباد کرنے اور سندھ کو اپنے حصے کے حقوق نہ ملنے کے اپنے سخت گیر مؤقف کے باعث اُن پر ریاست سے بغاوت کے الزامات بھی لگتے رہے۔

بعدازاں 1973 میں جی ایم سید کی جانب سے سندھو دیش یعنی سندھ کے ایک آزاد حیثیت میں قیام کا تصور پیش کیا گیا۔

ماہرین اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کا آئین سازی سے قبل جی ایم سید کی صوبائی خود مختاری یقینی بنانے اور مذہبی شدت پسندی کا راستہ روکنے کی تجاویز کونظرانداز کرناقراردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بدظن ہوگئے۔سندھودیش کے مؤقف کے سبب جی ایم سید کو تین دہائیوں سے زائد عرصہ نظر بندی میں گزارنا پڑا۔

سندھی قوم پرست سیاست میں پرتشدد رجحانات

یوں تو سندھ میں علیحدگی پسندی میں تشدد کا عنصر 1970 سے شامل ہے جس کا اظہار اسی کی دہائی میں سندھی مہاجر فسادات میں بھی نظرآیا۔ مگر 2000 میں پرتشدد سیاست کا ایک نیا اورمنظم دورکا آغاز تب ہوا جب شفیع برفت نے جسمم کے نام سے اپنانیا گروہ تشکیل دیتے ہوئے تنظیمی آئین میں جی ایم سید کے نکات کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت کے نکتے کااضافہ کیا۔

ایس ایل اے انہی برسوں میں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے شروع کی جانے والی ریاست مخالف کارروائیوں سے متاثر ہوئی۔انہوں نے بھی دیہی سندھ کے مختلف علاقوں خصوصاً حیدرآباد، کوٹری، جامشورو اوردادو میں بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنوں اور ریلوے ٹریکس کو بم دھماکوں سے اڑانا اورسرکاری املاک کونقصان پہنچانا شروع کر دیا۔

اسی عرصے کے دوران قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے دیہی سندھ میں جسمم کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔ دیہی سندھ سے قوم پرست کارکنوں کی مبینہ جبری گمشدگیوں اورماورائے عدالت ہلاکتوں کی شکایات بھی عام ہونے لگیں۔

بعد میں جب سندھ حکومت نے چین کی مدد سے ذوالفقار آباد کے نام سے ٹھٹھہ میں ایک نئے شہرکے قیام کااعلان کیا جئے سندھ تحریک کے مختلف دھڑوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں چینی مفادات پرحملے بھی ایس ایل اے اور بعد میں بننے والی ایس آر اے نامی سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کے ایجنڈے میں شامل ہوئے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG