اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے دستے منگل کو مالم جبہ اور مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں گشت کر رہے ہیں جب کہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مٹہ کے پہاڑی سلسلوں کنالہ اور بالاشور میں بھی فوج کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔
سیکیورٹی فورسز کے مزید دستے علاقے میں پہنچنے کی اطلاعات پر سوات کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح شدت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔
سوات کے مرکزی انتظامی شہر مینگورہ اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم کے شہر سدہ میں اتوار کو ہزاروں افراد نے ہاتھوں میں سفید رنگ کے جھنڈے تھامے امن کے قیام اور دہشت گردوں کے خاتمے کے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرے کیے۔
خیبر پختونخوا کی وادیٴ سوات سے نجی موبائل فون کمپنی کے اغوا کیے جانے والے سات ملازمین میں سے ایک کی تصویر پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پرجاری کی ہے۔ ٹی ٹی پی نے مغوی ملازمین کی رہائی کے بدلے 10 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
میران شاہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ کے مطابق علاقے میں حالات بظاہر معمول کے مطابق ہیں، تمام تر بازار کھلے ہیں، تجارتی سرگرمیاں بحال ہیں اور تعلیمی اداروں سمیت سرکاری اداروں کے دفاتر بھی کھلے ہیں مگر اندرونی طور پر لوگوں میں پہلے سے موجود تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ تین روز کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور لکی مروت میں نامعلوم حملہ آوروں نے مختلف واقعات میں فائرنگ کر کے پولیس کے دو اہلکاروں کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا تھا، ان واقعات کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور سرگرمیاں شروع کرنے کے خلاف مقامی سیاسی جماعتیں اور شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ قیامِ امن اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے اتوار کو مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عام شہریوں نے ’خیبر امن مارچ‘ کا انعقاد کیا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کی مبینہ سرگرمیوں پر ابھی تک کوئی واضح مؤقف نہیں دیا ہے تاہم حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی یا تشدد کا کوئی واقع پیش آنے کی صورت میں سیکیورٹی ادارے فوری کارروائی کرتے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز سیلاب سے متاثرہ کالام میں مقامی لوگوں سے خطاب میں بھی دریائے سوات کی گزر گاہ اور کناروں پر تعمیرات نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف اسی قسم کی تعمیرات کو سیلاب اور شدید بارشوں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ اس سے کالام کی خوب صورتی بھی متاثر ہوتی ہے۔
بنوں پریس کلب کے عہدیدار محمد وسیم خان کے بقول پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست کے موقع پر اس فیملی پارک میں کثیر تعداد میں خواتین کے جمع ہونے کے بعد مقامی علما اور مذہبی شخصیات نے اعتراضات اٹھانا شروع کردیے تھے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری سراپا احتجاج ہو۔ اس سے قبل بھی اقلیتی برادری کے خلاف تشدد یا اُنہیں قتل کیے جانے کے واقعات پر احتجاج ہوتا رہا ہے۔
تین خواتین کو قتل کرنے کا واقعہ پشاور کے نواحی علاقے داؤد زئی میں جمعرات کی شام پیش آیا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر جاری ایک بیان میں وجہ عناد غیرت کے نام پر قتل بتایا ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلعے ٹانک میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے انسدادِ پولیو مہم میں سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دینے والے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا ہے۔ فائرنگ سے دو اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
گزشتہ برس جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تو ہزاروں افغان شہری خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے جو دوسری مرتبہ اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ شمیم شاہد اور عمر فاروق کی اس رپورٹ میں ملیے ایک ایسے ہی ایک فن کار سے جنہیں دو مرتبہ ہجرت کی مشکلات سہنی پڑیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقوں میں فرنٹیئر کور کے دستے تعینات اور وہاں سے مبینہ عسکریت پسندوں کو نکالنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں البتہ مقامی لوگ اب بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مسلح ارکان کی مبینہ موجودگی کی خبروں کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔
رحیم اللہ حقانی کو سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں گرفتار بھی کیا گیا جب کہ ان پر مبینہ طور پر امریکہ نے ڈرون حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ خود محفوظ رہے تھے، تاہم ان کے ایک صاحبزادے ہلاک ہو گئے تھے۔
وفاقی حکومت نے شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنا دینے والے قبائل کے ساتھ مذاکرات کے لیے سابق وزیرِ اعلیٰ اور جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی سربراہی میں 26 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، البتہ اس میں پی ٹی آئی کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق شمالی وزیرستان کے قصبے میر علی میں دھماکہ خیز مواد سے بھرا رکشہ فوجی گاڑی سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں چار سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
مزید لوڈ کریں