افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں انسدادِ پولیو مہم کے دوران رضاکاروں کی ٹیم پر حملے میں پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
سول انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے حکام شمالی وزیرستان میں دہشت گردی اور تشدد کے حالیہ واقعات کا ذمے دار کالعدم تنظیم 'شوریٰ مجاہدین شمالی وزیرستان' کو قرار دے رہے ہیں جس کے سربراہ حافظ گل بہادر ہیں۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کو پارلیمان میں لانے کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین میں قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرکے سرحد پار جانے والے پاکستانی بھی شامل ہیں ۔ حکام نے لگ بھگ 30 لاشیں شمالی وزیرستان منتقل کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
گلگت بلتستان میں 2022-2021 کے دوران 226 افراد نے خودکشی کی جن میں 116 مرد اور 110 خواتین شامل ہیں۔ سب سے زیادہ خودکشیاں ضلع غذر میں 132، ضلع گلگت میں 46 ،ہنزہ میں 26 ، نگر میں دو، دیامر میں چھ، استور میں 5، گانچھے میں 2، شگر میں 6 اور ھرمنگ میں خود کشی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے ذریعے اسلام آباد کی بات چیت کا عمل جاری ہے حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے ان مذاکرات کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات سے متعلق فیصلے کرنے کی مجاز پارلیمنٹ ہی ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ریسکیو 1122 کے ترجمان کے مطابق رواں ماہ کے پہلے ہفتے کے دوران 400 سے زائد چھوٹے بڑے جنگلات و پہاڑی سلسلوں میں لگی آگ پر قابو پایا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ مئی میں صوبے کے مختلف علاقوں کے جنگلات میں آگ لگنے کے 313 واقعات سامنے آئے تھے۔
خیبر پختونخوا کے مختلف پہاڑی علاقوں کے جنگلات میں رواں برس آگ لگنے کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ جنگلات میں آتش زدگی سے ایک ہی خاندان کے چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بڑی تعداد میں درخت خاکستر ہوگئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے انسدادِ پولیو کے ہنگامی مرکز کے ترجمان ایمل ریاض کے مطابق پولیو سے متاثر ہونے والے مریضوں کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے جن میں چھ میر علی سے ہیں۔ متاثرہ مریضوں میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں شامل ہیں۔
اسلام آباد سے کابل روانگی کے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےجرگے میں شامل سابق گورنر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ خان کا کہنا تھا کہ بات چیت میں کالعدم تنظیم اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے رابطے پر وائس آف امریکہ کی جانب سے بھجوائے گئے تحریری سوالات کے جواب میں حتمی معاہدے پر پہنچنے کی تردید کی، تاہم اُن کے بقول س بہت ے معاملات پر اتفاق ہوا ہے۔
افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فن کاروں اور گلوکاروں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد پار خیبر پختونخوا نقل مکانی کی تھی۔ ان میں سے بعض فن کاروں کو پشاور میں پولیس نے حراست میں لیا تھا جن کو عدالت نے افغان حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہنے والے قبائلی اضلاع کے روایتی جرگے کے رُکن حاجی بسم اللہ خان نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے پر اتفاقِ رائے کی تصدیق کی ہے۔
دونوں گزرگاہوں کے کھلنے سے افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ اور خیبر پختونخوا کے چترال اور لوئر دیر کے درمیان باقاعدہ طور پر دوطرفہ آمد ورفت اور تجارت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
خیبر پختونخواہ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں عدالتی احکامات کے تحت تمام 35 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے بعد زیادہ تراضلاع اور تحصلیوں میں منتخب مئیر اور تحصیل چیئرمین عہدے سنبھالنے کے بعد کام شروع کر چکے ہیں۔
چین سے ملحقہ پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کی مقامی حکومت نے آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے سیاحوں کو جنگلات سے دور رہنے، وہاں رہائشی کیمپ بنانے اور آگ نہ جلانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔
پیرکو درج ہونے والے مقدمے میں نوشہرہ کے عدالت نے حکام کو انتہائی محتاط انداز سے الزامات کی تحقیقات کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
کابل میں ہونے والے مذاکرات میں شریک کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے نام ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں تاہم افغان صحافیوں کے مطابق وفد کی قیادت کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود خود کررہے تھے۔
ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور پشاور کور کے سربراہ کے دورہٴ کابل یا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں سرکاری سطح پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو رابطے پر بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ کے علاوہ دیگر مصالحت کاروں کی وساطت سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔
مزید لوڈ کریں