رسائی کے لنکس

عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں: سوات میں فورسز کے دستوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں عسکریت پسندوں کے سرگرم ہونے کی خبروں اور مقامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد سیکیورٹی فورسز کے بھاری دستوں کی پہاڑی علاقوں میں منتقلی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

ان اطلاعات کے مطابق فوجی اہلکاروں سمیت سیکیورٹی فورسز کے بھاری دستوں کی مٹہ اور مالم جبہ کے پہاڑی علاقوں میں منتقلی شروع ہوگئی ہے۔اگرچہ سرکار ی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے اور لوگوں کی جان مال کے تحفظ کے لیے تمام آئینی اور قانونی اختیارات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ وفاقی حکومت اور فوج کے اختیار میں ہے۔

دوسر ی جانب سوات کے مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے مزید دستے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ سوات کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کے مطابق بظاہر یہاں ماضی کی طرح شدت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔

کور کمانڈر کی عمائدین سے ملاقات

پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے جمعے کو سوات کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والی سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیات سے خطاب بھی کیا تھا ۔

اس ملاقات کے شرکاء میں شامل ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کور کمانڈر پشاور کا واضح الفاظ میں کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کو کسی بھی صورت میں امن وامان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر یہ عناصر اپنی سرگرمیوں سے باز نہیں آتے تو ان کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے گی۔

سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت

سوات کے مرکزی تجارتی شہر مینگورہ کے سینئر صحافی عیسی خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کے مزید دستے علاقے میں پہنچ چکے ہیں اور ان دستوں کو مٹہ، مالم جبہ اور دیگر علاقوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مٹہ اور مالم جبہ میں موبائل ٹیلیفون نیٹ ورک سسٹم بھی تعطل کا شکار ہے ۔ اگرچہ مینگورہ سمیت ضلع بھر میں کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق ہے مگر عام لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف علی نے چند روز قبل وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ کابل میں ہونے والی بات چیت میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی اور مستقل مصالحت کے لیے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔لیکن ٹی ٹی پی کے کے جنگجوؤں نے اگست کے اوائل میں سرحد عبور کرکے وادی سوات سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں مبینہ طور پر سرگرمیاں شروع کرکے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

بیرسٹر سیف نے شدت پسندوں کو 17 ستمبر تک علاقہ چھوڑنے کا کہا تھا اور بصورت دیگر ان کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

عسکریت پسندوں کی کارروائیاں

مالم جبہ کے سیاحتی علاقے میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب نامعلوم عسکریت پسندوں نے پولیس موبائل وین پر فائرنگ کی اور پولیس کی جوابی فائرنگ کے بعد عسکریت پسند فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے اس واقعے میں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔ پچھلے دو دنوں کے دوران اس علاقے میں پولیس پر عسکریت پسندوں کا یہ دوسرا حملہ ہے۔

پچھلے جمعے کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مقامی امن کمیٹی کے سابق سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنانے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس کارروائی میں ادریس خان سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ٹی ٹی پی نے ہفتے کے روز چارباغ قصبے سے ملحقہ دکوڑک گاؤں کے حاجی محمد شیرین کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ دہشت گردی اور تشدد کے ان پے درپے واقعات سے وادیٔ سوات اور ملحقہ اضلاع کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

رواں برس اگست کے اوائل میں افغان سرحد کے پار سے روپوش عسکریت پسندوں کا ایک گروہ اچانک مٹہ کے پہاڑی چوٹیوں پر نمودار ہوا تھا۔ ان شد ت پسندوں نے یہاں پہنچنے کے دوسرے دن دو فوجی اور ایک پولیس عہدے داروں سمیت چار اہلکاروں کو ایک معمولی جھڑپ کے بعد لگ بھگ بیس گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔

اس واقعے سے دو دن قبل سوات سے ملحقہ ضلع دیر کے علاقے میدان میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی کے گاڑی پر فائرنگ کی تھی۔ اس حملے میں چار افراد ہلاک اور ملک لیاقت سمیت تین دیگر افراد زخمی ہوگئے تھے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے خیبر پختونخوا کی وادیٴ سوات اور قبائلی اضلاع سمیت مختلف علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور کالعدم تنظیم کی سرگرمیاں شروع ہونے کے خلاف امن ریلیوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سلسلے میں سوات کے مرکزی شہر مینگورہ اور افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے کرم کے شہر سدہ میں اتوار کو ہزاروں افراد نے ہاتھوں میں سفید پرچم لیے امن کے حق میں اور دہشت گردوں کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG