پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے اضلاع لکی مروت اور باجوڑ میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر الگ الگ حملوں میں مجموعی طور پر آٹھ اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ضلع باجوڑ کے علاقے ہلال خیل میں سیکیورٹی فورسز اور مبینہ دہشت گردوں کا مقابلہ ہوا۔ اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک مبینہ دہشت گرد مارا گیا جب کہ اسلحہ اور گولہ بارود قبضے میں لے لیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے اس تبادلے میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار نائیک تاج محمد اور لانس نائک امتیاز خان بھی ہلاک ہوگئے۔
حکام کے مطابق لکی مروت میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں پولیس وین پر مبینہ عسکریت پسندوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں چھ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
لکی مروت کے ضلعی پولیس دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق واقعہ تھانہ ڈاڈیوالہ کی حدود میں پیش آیا۔ حملہ آوروں نے چوکی عباسہ خٹک کی پولیس وین کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں ڈیوٹی انچارج سب انسپکٹر اور ڈرائیور سمیت چھ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
واقعے کے بعد پولیس کی مزید نفری کو طلب کرلیا گیا اور علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں ملک بالخصوص خیبرپختونخوا میں پولیس پر ہونے والاعسکریت پسندوں کا یہ بڑا حملہ ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کا ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ٹی ٹی پی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حملہ آور ہلاک پولیس اہلکاروں کے زیرِاستعمال سرکاری اسلحہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں دونوں واقعات اور اس کے نتیجے میں 10 اہلکاروں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایک روز قبل سیکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی میں لکی مروت سے ملحقہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سات مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
تاہم ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے قبل اس مقام پر امریکی ڈرون حملہ کیا گیا تھا۔
لکی مروت واقعے کا نوٹس
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ محمود خان نے لکی مروت میں پولیس موبائل پر فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
وزیرِاعلیٰ نے کہا ہے کہ واقعے میں جان سے جانے والوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
وفاقی وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ نے بھی لکی مروت میں پولیس وین پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں حالیہ عرصے میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند روز قبل افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے میں ایک پولیس تھانے پر حملے میں دو اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ضلعی پولیس افسر نے متعلقہ تھانے سمیت دو تھانوں کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی احتشام خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں رواں سال پولیس اہلکاروں، تھانوں اور چوکیوں پر حملوں میں سو سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے بقول زیادہ تر اہلکار گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔