پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی ہلچل بڑھ گئی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسمبلی کو تحلیل سے بچانے اور تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت سے جان چھڑانے کے لیے حکمتِ عملی وضع کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور پی ٹی آئی کے صوبائی صدر پرویز خٹک بھی پارٹی کو متحد رکھنے اور عمران خان کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر عمل در آمد کے لیےمتحرک ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ کے اختتام پر جلسے سے خطاب میں موجودہ سیاسی نظام سے نکلنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔ اتوار کو ہونے والے اجلاس کی صدارت قائد حزبِ اختلاف اور سابق وزیرِ اعلیٰ اکرم خان درانی نے کی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں میں کافی بحث و مباحثے کے بعد جاری بیان میں کہا کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کا راستہ روکنے کے لیے آئینی اور جمہوری طریقۂ کار اپنایا جا ئے گا ۔
اس سلسلے میں حزبِ اختلاف کی جانب سے تیار کیے گئے لائحہ عمل کے بارے میں کسی قسم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
حزبِ اختلاف کے بیان میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا تو کہا گیا ہے البتہ اس سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے خلاف اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
چندماہ قبل تحریکِ انصاف سے منحرف ہونے والے رکنِ صوبائی اسمبلی انجینئر فہیم خان نے اخبارات کو جاری بیان میں وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے دعوٰی کیا کہ اس کی حمایت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والےارکان اسمبلی بھی کریں گے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور صوبائی وزیر شوکت علی یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کے اعلان کے تحت خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کیا جا رہا ہے۔
اسمبلی کی تحلیل کے وقت کے بارے میں تو انہوں نے کچھ تفصیل نہیں بتائی البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں صلاح و مشورے جاری ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے اس فیصلے پر مکمل عمل در آمد میں چند ماہ لگ سکتے ہیں ۔
اسمبلی سے مستعفی ہونے یا تحلیل کرنے کا عمران خان کا اعلان کیا حیران کن تھا؟ اس سوال پر شوکت علی یوسف زئی نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے وہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں سے کافی عرصے سے صلاح مشورے کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پشاور کے آخری دورے کے موقع پر کہا تھا کہ موجودہ سیاسی نظام سے نکلے بغیر نئے انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا ممکن نہیں ہے، اسی لیے یا تو تحریکِ انصاف اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہیے یا پنجاب اور خیبر پختونخوا کے اسمبلیوں کو تحلیل کر دینا چاہیے۔
صوبائی وزیر کا دعویٰ تھا کہ عمران خان کے اس فیصلے پر عمل در آمد کے لیے پارٹی مکمل طور پر متحد ہے اور کسی بھی رکنِ صوبائی یا قومی اسمبلی کو اس فیصلے سے اختلاف نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دو تین ارکان اسمبلی نے عمران خان کے اعلان کےبعد استعفے وزیرِ اعلیٰ کے حوالے کیے ہیں۔ ان میں سوات سے رکنِ صوبائی اسمبلی عزیز اللہ گران بھی شامل ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی نےحزبِ اختلاف کے بیانات کے بارے میں کہا کہ اپوزیشن اپنی سیاسی چال چلے گی، اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف قوم کو آزمائش میں نہ ڈالے ۔ عام انتخابات کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی بھی کہہ چکے ہیں کہ اسمبلی سے نکلنے کے لیے بالکل تیار ہیں تاہم عمران خان کے حکم کا انتظار ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبے کی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کو واضح اکثریت حاصل ہے جب کہ حزبِ اختلاف میں شامل تمام چھ جماعتوں کے اراکین کی تعداد صرف 45 ہے۔
تحریکِ انصاف کو اپنے 94 اراکین کے علاوہ دو آزاد اراکان اور مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن کی بھی حمایت حاصل ہے۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے کامیابی کے لیے 73 اراکین اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہے۔
سینئر صحافی شاہد حمید کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے منحرف اور آزاد اراکین کو شامل کرکے حزبِ اختلاف کے حامی اراکین کی تعداد 50 جب کہ تحریکِ انصاف کے اراکین کی تعداد 95 ہے ۔
ان کے بقول حزبِ اختلاف کو کامیابی تب ملے گی جب تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین کا کوئی بڑا گروپ حکومت کے خلاف ووٹ دے۔
ابھی تک سابق وزیرِ قانون سلطان محمد خان نے عوامی نیشنل پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے جب کہ پشاور سے انجینئر فہیم خان نے کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی البتہ وہ حزبِ اختلاف کی حمایت اور تحریکِ انصاف کی مخالفت کر رہے ہیں ۔
انجینئر فہیم کا دعوٰی ہے کہ دو درجن کے لگ بھگ ارکانِ صوبائی اسمبلی تحریکِ انصاف کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔