امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے عمل کے جلد شروع ہونے پر زور دیا ہے۔
خلیل زاد نے کہا ہے کہ وعدے کے باوجود اب تک دونوں جانب سے کوئی قیدی رہا نہیں ہوئے ہیں۔
خلیل زاد نے اپنی کئی ٹوئٹس میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے درپیش مہلک خطرے کا ذکر کرتے ہوئے قیدیوں کی جلد رہائی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صدارتی انتخابات کے نتائج کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو جلد حل کرنے پر بھی زور دیا۔
یاد رہے گزشتہ ماہ کے اواخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذکرات شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک دوسرے کے قیدیوں تبادلہ ہونا تھا۔
امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کی قید میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے ایک ہزار طالبان قیدیوں کو رہائی ملنا تھی۔
اگرچہ افغان صدر اشرف غنی نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی مرحلہ وار اور مشروط رہائی کے لیے حکم جاری کیا تھا تاہم یہ عمل عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ افغان حکام کے مطابق قیدیوں کی فہرست کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہو گا۔
افغان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ قیدیوں کے تحفظ کے لیے عالمی امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں لیکن طالبان یہ متنبہ کر چکے ہیں کہ کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نطر افغانستان کی مختلف جیلوں میں صحت عامہ کی سہولیات ناکافی ہیں اس لیے 40 ہزار قیدیوں کی صحت لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ وقت آگیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیون کی رہائی فوری طور پر عمل میں آئے۔
ان کے بقول، دونوں جانب سے تکنیکی ٹیمیں قیدیوں کی جلد رہائی کے لیے تکنیکی اقدامات کر سکتی ہیں۔ وہ اس سلسلے میں ہونے والے ابتدائی اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔
خلیل زاد نے کہا کہ طالبان یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ رہا ہونے والے قیدی دوبارہ جنگ میں شامل نہیں ہوں گے لہذا اس بات کی خلاف ورزی امن عمل کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقت آگیا ہے کہ افغان امن سمجھوتے کے ساتھ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیاسی بحران کو حل کریں۔ یہ بحران افغانستان کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے۔
خلیل زاد کے بقول یہ وقت اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ افغانوں کو اپنے عوام اور ملک کو مقدم رکھنا چاہیے، کیونکہ یہ زندگی اور موت کو مسئلہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں افغانستان میں غیر یقینی صورتِ حال کے پیش نظر افغان عمل کے جلد شروع ہونے کا فوری طور پر امکان نہیں ہے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونا، کابل میں جاری اقتدار کی رسہ کشی کا شاخسانہ ہے۔ اسی وجہ سے بین الافغان مذاکرات بھی شروع نہیں ہو سکے۔ طاہر خان کا کہنا ہے کہ یہ عوامل افغان امن عمل کے لیے خوش آئند نہیں ہیں۔
طاہر خان کے بقول امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت خلیل زاد کی ٹوئٹس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ افغان تنازع کے حل کے لیے امریکہ طالبان معاہدے کے تحت جو روڈ میپ طے ہوا تھا اس کو دھچکا لگا ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت 10 مارچ کو بین الافغان مذکرات شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی تبادلہ ہونا تھا۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس بات کی ضمانت دینا ہو گی کہ یہ قیدی رہائی کے بعد جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔
طاہر خان کے بقول طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں افغان حکومت کے سخت موقف کی وجہ سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع نہیں ہوتا تو افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی میں شدت آ سکتی ہے۔
طاہر خان کے بقول اگر طالبان قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو یہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد سازی کے لیے اہم قدم ہو گا۔