رسائی کے لنکس

ہر فریق سمجھوتے کی من پسند تشریح کر رہا ہے: حسین حقانی


واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے امریکہ طالبان سمجھوتے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ’’خراب سمجھوتا‘‘ ہے۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ سمجھوتے میں بنیادی نوعیت کا جھول موجود ہے جس کی بنا پر ہر فریق سمجھتا ہے کہ یہ اس کے فائدے میں ہے۔ امریکی مذاکراتی ٹیم نے اسے امن معاہدہ قرار دیا ہے جب کہ طالبان اسے امریکی فوج کے انخلا کا سمجھوتا سمجھتے ہیں۔

حسین حقانی نے کہا کہ اگر آپ غور سے پڑھیں تو سمجھوتے میں القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی انخلا کا ذکر ہے جبکہ مذاکرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ طالبان اور دیگر افغانوں کی مدد کرے گا۔ اس سلسلے میں کسی ضمانت کی بات نہیں کی گئی۔

بقول ان کے ’’یہ ایسا سمجھوتا ہے جس کی دونوں فریق مختلف تشریح کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میری طرح کے لوگ اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے خراب سمجھوتا قرار دیتے ہیں۔‘‘

ادھر کابل سے جاری بیان میں صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا ہے کہ ’’طالبان نے لڑائی جاری رکھی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ شرائط کی پابندی نہیں کر رہے۔‘‘

افغان قومی سلامتی ایجنسی کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا ہے کہ ’’تشدد کی کارروائیوں میں کمی کی معین مدت ختم ہوتے ہی طالبان نے 86 حملے کیے ہیں جبکہ جوابی کارروائی میں 85 طالبان کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اس میں چند شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘

افغان فوج کے سربراہ کے ترجمان شیر محمد کریمی نے کہا ہے کہ ’’تشدد میں کمی کی کارروائی جنگ بندی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ میرے خیال میں لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دونوں فریق مذاکرات کے لیے بیٹھ کر جنگ بندی پر اتفاق نہیں کرتے۔‘‘

سابق طالبان رہنما اکبر آغا کا کہنا ہے کہ جس سمجھوتے پر اتفاق ہوا تھا، اسے بگاڑ دیا گیا ہے۔ اب اشرف غنی طالبان کو رہا کرنے پر رضامند نہیں۔ طالبان کو کچھ وقت انتظار کرنا چاہیے تھا۔

ادھر اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور صحافی زاہد حسین نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ کوئی اچھا شگون نہیں۔

زاہد حسین نے کہا کہ صدر اشرف غنی کی طرف سے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کی وجہ سے طالبان نے تشدد کی کارروائیاں شروع کی ہیں جو تشویش کی بات ہے۔ اس کی وجہ سے بین االافغان مذاکرات کا عمل تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG