انتہا پسند عالم کے خلاف یمن میں قانونی کاروائی کا آغاز

انتہا پسند عالم کے خلاف یمن میں قانونی کاروائی کا آغاز

یمنی حکام کی جانب سے امریکہ آنے والے ایک طیارے کو بم سے اڑانے کی ناکام سازش تیار کرنے میں مبینہ طور پہ ملوث عالمِ دین کے خلاف باقاعدہ قانونی چارہ جوئی کاآغاز کردیا گیا ہے۔

منگل کے روز یمنی دارالحکومت صنعا کی ایک عدالت میں استغاثہ کی جانب سے امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمان عالمِ دین انوار الاولکی کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں مقدمے کی کاروائی کا آغاز کیا گیا اور ان پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ القاعدہ کا رکن تصور کیے جانے والے الاولکی کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ یمن میں روپوش ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق الاولکی نے گزشتہ دسمبر کو امریکہ آنے والی ایک پرواز کو بم سے اڑانے کی ناکام سازش اور نومبر 2009 میں فورٹ ہوڈ، ٹیکساس کے علاقے میں ایک امریکی فوجی بیس پر کیے جانے والے حملے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فورٹ ہوڈ حملے میں 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

منگل کے روز الاولکی کے خلاف الزامات ہشام عاصم نامی ایک اور شریک ملزم کے خلاف جاری مقدمے کے دوران عائد کیے گئے۔ یمنی حکام کے مطابق ہشام پر گزشتہ مہینے ایک آئل کمپنی پر حملے کے دوران ایک فرانسیسی شہری کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ تاہم ہشام نے عدالت کے سامنے الزام کی حقیقت کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے اس پر تشدد کرکے جرم قبول کرنے پر مجبور کیا۔

دریں اثناء یمنی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ جانے والے سامان بردار طیاروں میں بم رکھنے کی کوشش کرنے والے القاعدہ سے متعلق شخص کی تلاش جاری ہے۔

حکام کے مطابق ابراہیم حسن العصیری کے نام سے شناخت کیے جانے والے مبینہ ملزم کی تلاش کیلیے تحقیقاتی ٹیمیں منگل کے روز یمن کے مارب اور شبوا نامی صوبوں کو روانہ کردی گئی ہیں۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ سعودی شہریت کے حامل العصیری کا تعلق یمن کی القاعدہ شاخ سے ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ العصیری گزشتہ سال امریکی آنے والے ایک طیارہ کو بم دھماکے سے اڑانے کی سازش میں بھی الاولکی کے ساتھ شریک تھا جسے ناکام بنادیا گیا تھا۔