آسٹریلیا کے ایک دور افتادہ مغربی علاقے میں دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو دوربین نصب کرنے کے کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے دور دراز سیاروں اور کہکشاؤں سے آنے والے سگنلز کو وصول کرنے اور ان پر تحقیق میں مدد ملے گی۔
اس ریڈیو دوربین کی خاصیت یہ ہے کہ اسے بین الاقوامی سائنسی تعاون حاصل ہے جس کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار اینٹیا اور 200 سیٹلائٹس کو آپس میں مربوط کیا جائے گا جس سے ریڈیو دوربین کا قطرایک مربع کلو میٹر ہو جائے گا۔
اس دور بین کی دو طاقت ور رسد گاہیں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں دیو قامت اور انتہائی حساس دوربینوں پر مشتمل ہو نگی۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ یہ ریڈیو دور بین خلا سے موصول ہونے والے سگنلز سن کر اور خلا کی گہرائیوں میں دیکھ کرایسے بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا کسی اور سیارے میں بھی کوئی مخلوق موجود ہے؟ اولین ستاروں نے چمکنا کیسے شروع کیا اور ’ ڈارک انرجی‘ کیاہے جو پر اسرار انداز میں کائنات کو الگ کر رہی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ریڈیو دوربین کو ایک ایسے دور افتادہ مقام پر نصب کرنے کی ضرورت ہے جہاں زمین پر پھیلی ہوئی ریڈیائی لہریں مثال کے طور پر کمپیوٹروں، کاروں، طیاروں اور دوسرے الیکٹرانک آلات سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں اس کی کارکردگی میں خلل نہ ڈال سکیں۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کائنات کے مطالعے اور تحقیق کے لیے قائم کی جانے والی یہ دوربین ، زمین پر موجود اسی نوعیت کی دیگر دوربینوں کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ حساس ہو گی اور اس میں اسی نوعیت کی دیگر دوربینوں نے مقابلے میں 135 گنا زیادہ تیزی سے آسمان کا نقشہ بنانے کی صلاحیت ہو گی۔
کرٹن یونیورسٹی کے کرٹن انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو آسٹرونومی کے سینئر ریسرچ فیلو ڈینی پرائس نے پیر کے روز آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا کہ نئی ریڈیو دور بین کو ، جسے ایس کے اے کا نام دیا گیا ہے، فلکیات کی تحقیق سےمتعلق بے مثال قوت حاصل ہو گی ۔
پرائس کا کہنا تھا کہ یہ دوربین اب تک بنائی جانے والی تمام دوربینوں میں سے سب سے حساس اور طاقت ور ہو گی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کوئی خلاباز مریخ پر اترے گا تو یہ دوربین اس کی جیب میں موجود موبائل فون کا کھوج بھی لگا سکے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس دور بین کی تیاری اور تنصیب کے پراجیکٹ میں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت ایک درجن سے زیادہ ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
اس معاہدے کے بنیادی ارکان میں کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن، سی ایس آر او، آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی، اور مغربی آسٹریلیا اور آسٹریلیا کی وفاقی حکومت شامل ہیں۔
ماہرین کو توقع ہے کہ دنیا کی یہ سب سے بڑی ریڈیو دوربین اس دہائی کے آخر تک اپنا کام شروع کر دے گی۔