بھارت کی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسان گزشتہ کئی روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔
رواں سال ستمبر میں بھارت کی حکومت کے منظور کیے گئے قوانین کے خلاف کسان تنظیموں اور حکومت کے مابین مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔
اس دوران پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے اور بعض اوقات ٹرینیں روک کر بھی مطالبات منوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم نومبر کے آخری ہفتے میں یہ احتجاج مزید منظم ہوا اور بڑی تعداد میں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کا رُخ کر لیا۔ البتہ انتظامیہ نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس دوران کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے بعد کسانوں نے ملک کے دیگر شہروں کو دہلی سے ملانے والی اہم شاہراہوں کو بلاک کر کے دھرنا دے دیا ہے اور مطالبات کی منظوری تک احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت نے زرعی قوانین میں کیا تبدیلیاں کی تھیں؟
بھارت کی پارلیمان نے اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود زرعی اصلاحات سے متعلق تین بل منظور کیے تھے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے عجلت میں اپوزیشن کے تحفظات سنے بغیر بل منظور کرائے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے نئی اصلاحات کو بھارت میں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے سنگِ میل قرار دیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا۔
مذکورہ بل کے ذریعے زراعت میں نجی شعبے کے کردار کو بڑھایا گیا ہے۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کسان اپنی اجناس آزادانہ طور پر کھلی منڈیوں میں فروخت کر سکیں گے۔
زرعی اصلاحات کے تحت نجی شعبے کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ضروری اجناس کسانوں سے خرید کر مستقبل میں فروخت کے لیے ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل یہ حکومت خود کرتی تھی۔
نئے قوانین میں 'کنٹریکٹ فارمنگ' کی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی ہے جس میں خریدار کی ڈیمانڈ کے مطابق کاشت کار اجناس کاشت کریں گے۔
ان اصلاحات سے اجناس کی فروخت، قیمت کے تعین اور ذخیرہ کرنے کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ کسان اپنی اجناس مارکیٹ پرائس پر زرعی کاروبار سے وابستہ افراد، بڑے سپر اسٹورز اور آن لائن گروسری اسٹورز کو فروخت کر سکیں گے۔
اس سے قبل کسان کم سے کم یقینی قیمت پر اجناس سرکاری گوداموں اور منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
- زرعی اصلاحات سے متعلق منظور کیے گئے تینوں بل فوری واپس لیے جائیں۔
- زرعی اجناس کی امدادی قیمت سرکار متعین کرے اور وہی کسانوں سے اجناس خریدے جب کہ اس عمل کو قانونی درجہ دیا جائے۔
- اجناس کی امدادی قیمت سے متعلق 'سوامی ناتھ کمیشن' کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔
- زرعی استعمال کے لیے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فی صد کمی کی جائے۔
- کاشت کاری کے لیے بجلی کی کمرشل قیمت مقرر کرنے کے بجائے جو فلیٹ ریٹ پہلے سے متعین ہیں اسے ہی برقرار رکھا جائے۔
- بھارت بھر میں کسانوں رہنماؤں پر درج کیے گئے مقدمات واپس لیے جائیں۔
- ایئر کوالٹی کمیشن آرڈیننس 2020 فوری طور پر واپس لیا جائے۔
کسانوں کو تحفظات ہیں کہ قوانین میں تبدیلیوں سے سالہا سال سے اُنہیں حاصل سرکاری تحفظ ختم ہو جائے گا اور نجی شعبے کو کسانوں کا استحصال کرنے کا موقع مل جائے گا۔
ناقدین کسانوں کے بعض مطالبات کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر ایئر کوالٹی کمیشن کے خاتمے کا مطالبہ، جو دارالحکومت نئی دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
اس کمیشن کے تحت فصلوں کی باقیات جلانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
لیکن حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان کے نفاذ سے کسانوں کو منڈیوں میں 'مڈل مین' سے نجات مل جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اجناس کی کم سے کم امدادی قیمت یعنی مینیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) برقرار رہی گی جب کہ منڈی کا نظام بھی چلتا رہے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ مذکورہ قوانین ان چھوٹے کسانوں کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں جو اپنی پیداوار کے لیے نہ تو سودے بازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان اپنی پیداوار کو منڈیوں کے باہر بھی ان لوگوں کو فروخت کر سکیں گے جو انہیں خریدنا چاہیں۔ وہ پرائیویٹ کمپنیوں سے بھی معاہدہ کر سکیں گے۔ اسے کنٹریکٹ فارمنگ کہتے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کسان زرعی تاجروں یا نجی کمپنیوں کو مارکیٹ قیمتوں پر اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر کسان اپنی پیداوار حکومت کے زیرِ انتظام تھوک منڈیوں میں مقرر کردہ قیمت کے تحت فروخت کرتے رہے ہیں۔
احتجاج کن کن علاقوں میں ہو رہا ہے؟
بھارت کی جن ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں ہڑتال کے باعث معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہیں جب کہ مبصرین نے حکومت کی زیرِ اثر ریاستوں میں احتجاج کم زور قرار دیا ہے۔
کسانوں نے گزشتہ دنوں اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے 'بھارت بند' کا سلوگن متعارف کرایا تھا جس کا مقصد ملک بھر میں احتجاج کو وسعت دینا ہے۔
بھارت بھر میں ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ ان ریاستوں میں ہزاروں کسانوں نے اہم شاہراہیں اور سڑکیں بند کر دیں۔ بازار، دکانیں اور تجارتی ادارے بھی مکمل طور پر بند رہے۔
متعدد ریاستوں میں نقل و حمل پر برا اثر پڑا۔ دارالحکومت دہلی میں بھی ہڑتال کا اثر نظر آیا۔ متعدد علاقوں میں بازار بند رہے اور ٹریفک کا نظام بھی متاثر رہا۔
مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ اور مہاراشٹر میں کسانوں اور سیاسی کارکنوں نے ریل کی پٹریوں پر قبضہ کر لیا۔ محکمہ ریلوے نے پہلے ہی متعدد ٹرینوں کی منسوخی یا ان کے روٹ بدلنے کا اعلان کیا تھا۔
کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے اب بھی کوششیں جاری ہیں۔
بھارت کی کئی اپوزیشن جماعتیں بشمول انڈین نیشنل کانگریس کسانوں کے اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں۔