|
عالمی ادارہ صحت(WHO) نے منگل کو ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے جس کے ذریعے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے ہزاروں بچوں کو کینسر کے علاج کی ادویات مفت فراہم کی جائیں گی تاکہ ان کے زندہ رہنے کی شرح کو بہتر بنایا جا سکے۔
ڈبلیو ایچ او کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے یہ اودیات منگولیا اور ازبکستان بھیجی جا رہی ہیں اور پروگرام کے اس پہلے مرحلے میں یہ دوائیں ایکواڈور، اردن، نیپال اور زیمبیا بھی بھیجی جائیں گی۔
عالمی ادارہ صحت نے توقع ظاہر کی ہے کہ ان چھ ملکوں کے لگ بھگ 30 اسپتالوں میں اس سال کینسر میں مبتلا کم از کم پانچ ہزار بچوں کا علاج کیا جائے گا۔
اس پروگرام میں پاکستان، ال سلواڈور، مالدوا، سینیگال، اور سری لنکا کی شمولیت بھی جلد متوقع ہے۔
اقوام متحدہ کے صحت سے متعلق ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں شامل ملکوں کو کینسر کے علاج کی معیاری ادویات بلا کسی تاخیر کے مفت فراہم کی جائیں گی۔
کینسر میں مبتلا 22 ماہ کی بچی۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں میں کینسر میں مبتلا بچوں کے زندہ بچ جانے کی شرح اکثر اوقات 30 فی صد سے کم ہوتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں زیادہ آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 80 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اذہانوم گیبرئیس کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا بچوں کی زندگی بچانے والی اودیات تک رسائی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پروگرام دنیا بھر کے بچوں کے لیے صحت اور امید لائے گا۔
SEE ALSO: کھانے کےرنگ ’ریڈتھری‘ سے کینسر ہو سکتا ہے، امریکہ میں پابندی عائدعالمی ادارہ صحت کا ہدف اگلے پانچ سے سات برسوں میں اس پروگرام کا دائرہ 50 ملکوں تک پھیلانے کا ہے جس سے تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار بچے مستفید ہو سکیں گے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 4 لاکھ بچے کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایسے ماحول میں رہ رہے ہوتے ہیں جہاں وسائل محدود ہوتے ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کے اندازے کے مطابق 70 فی صد کے لگ بھگ بچے مناسب علاج معالجے کی سہولتوں میں کمی، یا علاج میں رکاوٹیں پیش آنے یا ادویات کے غیر معیاری ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
بچوں کو کینسر سے محفوظ رکھنے کے اس پروگرام کا اعلان پہلی بار دسمبر 2021 میں کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: کینسر؛ 'لوگوں کے منفی رویے بھی کسی کیمو تھراپی سے کم نہیں'یہ پروگرام عالمی ادارہ صحت اور امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں قائم سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ اسپتال کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے۔
سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ اسپتال ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس نے یہ پروگرام شروع کرنے کے لیے 20 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ بچوں میں کینسر کے علاج کی اودیات کے لیے عالمی سطح پر یہ سب سے بڑا مالی امداد کا وعدہ ہے۔
صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ادویات کی مفت فراہمی اس پروگرام کے پہلے مرحلے کے بعد بھی جاری رہے گی اور اس عمل کو پائیدار بنیاد فراہم کرنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے کینسر کنٹرول پروگرام کے ٹیکنیکل سربراہ آندرے الباوی نے کہا ہے کہ وہ اس پروگرام کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے دیگر شراکت داروں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
SEE ALSO: تاریخ میں پہلی مرتبہ تجرباتی دوا سے کینسر کے تمام مریض شفایابانہوں نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ پروگرام کینسر میں مبتلا بچوں کو لازمی اودیات فراہم کرنے کی ایک عالمی تحریک کا آغاز ہے چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں یاان کے پاس خریدنے کی استطاعت نہ ہو۔
الباوی کا مزید کہنا تھا کہ کینسر میں مبتلا بچوں کا علاج امیر ملکوں کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ کیونکہ بچپن کا کینسر درمیانی اور زیادہ آمدنی والے ملکوں میں پانچ سے 14 سال کی عمر کے بچوں میں موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس لیے وہاں حکومتیں اس پرانتہائی توجہ دے رہی ہیں۔
انہوں نےیہ بھی کہا کہ امریکی حکومت کے عالمی ادارہ صحت سے نکلنے کے حالیہ فیصلے سے کینسر میں مبتلا بچوں کے اس پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)