امریکی امداد معطل ہونے سے پاکستان میں کون سے شعبے متاثر ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق امریکہ پاکستان میں ماحول دوست توانائی کے منصوبوں میں سب سے زیادہ امداد دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ متاثر بھی یہ منصوبے ہوں گے۔

  • امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اب آنکھیں بند کر کے پیسے نہیں دے گا۔
  • امریکی فارن اسسٹنس ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان کو یو ایس ایڈ کے تحت 16 کروڑ 98 لاکھ ڈالر امداد دی گئی۔
  • ماہرین کہتے ہیں کہ فنڈنگ رُکنے سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں کئی منصوبوں پر کام بھی رُک جائے گا۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے موسمیاتی تبدیلیوں، صاف توانائی، اقتصادی بحالی، سماجی تحفظ، صحت ، پانی اور فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اہم منصوبوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔
  • امریکہ انتخابی اور قانونی نظام کو مضبوط بنانے، لینڈ رجسٹریشن، گورننس، جمہوریت کی مضبوطی اور مقامی حکومت سے متعلق بعض پروگرامز میں بھی پاکستان کی امداد کرتا ہے۔

کراچی -- نئی امریکی حکومت نے پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں عالمی امداد کے امریکی ادارے 'یو ایس ایڈ' کے تحت چلنے والے کئی منصوبوں کی فنڈنگ معطل کر دی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فنڈنگ رُکنے سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں کئی منصوبوں پر کام رُک جائے گا۔

لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکی امداد معطل ہونے سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

امریکی فارن اسسٹنس ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان کو یو ایس ایڈ کے تحت 16 کروڑ 98 لاکھ ڈالر امداد دی گئی۔ تاہم اب یہ امداد ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہو چکی ہے۔

اسی ویب سائٹ کے مطابق 2010 میں پاکستان کو یو ایس ایڈ کے تحت تین ارب 64 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم مختلف پراجیکٹس میں ادا کی گئی تھی۔ اس سال پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس نے ملک کے چاروں صوبوں کو متاثر کیا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اس حوالے سے ایک تفصیلی وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کیا یہ پروگرام مؤثر اور 'امریکہ فرسٹ' ایجنڈے کے تحت خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ ہیں۔

'ٹرمپ حکومت یقینی بنائے گی کہ ایک، ایک پائی کا ایمان داری سے حساب کیا جائے'

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اب آنکھیں بند کر کے پیسے نہیں دے گا، جب تک اس کے بدلے میں امریکی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ـ"سخت محنت کرنے والے ٹیکس دہندگان کی خاطر، بیرون ملک امداد کا نئے سرے سے جائزہ لینا اور اسے نئے سرے سے ترتیب دینا محض درست اقدام ہی نہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے۔"

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوِٹ نے بھی منگل کو پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم نے پچھلے چار برسوں میں بائیڈن حکومت کو بے دریغ پیسہ خرچ کرتے دیکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں مہنگائی کا سامنا ہے۔ لہذٰا ٹرمپ حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ ایک، ایک پائی کا حساب ایمان داری سے کیا جائے۔"

پاکستان میں کون سے شعبے متاثر ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے موسمیاتی تبدیلیوں، صاف توانائی، اقتصادی بحالی، سماجی تحفظ، صحت ، پانی اور فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اہم منصوبوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔

ان میں سب سے اہم توانائی سے متعلق منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے جن میں تقریبا ڈھائی کروڑ ڈالر کی لاگت سے پاور سیکٹر امپورومنٹ پراجیکٹ، ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی لاگت والا منگلا ڈیم بحالی کا پراجیکٹ، ایک کروڑ ڈالر کی لاگت سے پاکستان کلائمیٹ فنانسننگ پراجیکٹ سمیٹ دیگر منصوبے شامل ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کا منگلا ڈیم 1960میں امریکہ ہی کے مالی تعاون سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اب امریکی امداد سے منگلا ڈیم کی توسیع کے ایک منصوبے پر کام جاری ہے جس سے اس کی صلاحیت اور اس سے اضافی 300 میگاواٹ بجلی کا حصول بھی ممکن ہو پائے گا۔

یو ایس ایڈ کے تعاون سے خیبرپختونخوا میں گومل زام ڈیم کے کمانڈ ایریا کو وسعت دینے کا ایک منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل سے امید کی جا رہی ہے کہ ایک لاکھ 91 ہزار ایکڑ رقبے پر فصلیں کاشت کی جاسکیں گی۔

اسی طرح امریکی امداد سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے، نجی سرمایہ کاری میں اضافے، کمرشل قوانین کو بہتر بنانے، معاشی بحالی اور ترقیاتی کاموں اور سابقہ قبائلی علاقوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری تھا جن کی مالیت کروڑوں ڈالرز ہے۔

جمہوریت, گورننس اور انسانی حقوق

یو ایس ایڈ کے تحت پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور حکمرانی کو مضبوط کرنے کے مختلف پروگرام چلائے جارہے ہیں جس میں کئی منصوبے حال ہی میں مکمل ہوئے ہیں اور بعض اب بھی چل رہے ہیں اور ان کی مالیت لاکھوں امریکی ڈالرز میں ہے۔

امریکہ انتخابی اور قانونی نظام کو مضبوط بنانے، لینڈ رجسٹریشن، گورننس، جمہوریت کی مضبوطی اور مقامی حکومت سے متعلق بعض پروگرامز میں بھی پاکستان کی امداد کرتا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یو ایس ایڈ کے تحت ان رقوم کے اجرا کی معطلی عارضی نوعیت یعنی صرف 90 روز کی ہے اور اس دوران یہ جائزہ لیا جائے گا کہ کیا یہ نئے صدر کی خارجہ پالیسی سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔

'رائٹرز' کے مطابق 2023 میں یو ایس ایڈ کے تحت دُنیا بھر میں یو ایس ایڈ کے تحت 72 ارب ڈالرز خرچ کیے گئے۔

'تعلیم اور صحت کے شعبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں'

کراچی میں مقیم تجزیہ کار محمد جنجوعہ کہتے ہیں کہ بنیادی تشویش توانائی کے ان پانچ منصوبوں سے متعلق ہے جن کی مقررہ مدت میں تکمیل مشکل نظر آتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر فنڈز طویل عرصے تک رک گئے تو تعلیم اور صحت کے شعبے کے کچھ اہم منصوبے بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

محمد جنجوعہ کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں ماحول دوست توانائی کے منصوبوں میں سب سے زیادہ امداد دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ متاثر بھی یہ منصوبے ہوں گے۔

'تھوڑا ہی اثر پڑے گا'

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تاحال امریکہ کے اس اقدام پر کوئی باضابطہ ردِعمل نہیں دیا، تاہم وزیرِ خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سے غیر ملکی امداد سے چلنے والے ان منصوبوں پر "تھوڑا" ہی اثر پڑے گا۔

خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ اہم ہے کہ امریکی امداد وقتی طور پر روکی گئی ہے۔ دوسرا یہ امداد صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ تمام ممالک کی بند کی گئی ہے۔

خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دنیا کے مختلف ممالک سے ملنے والی گرانٹس میں اس رقم کا حصہ بہت ہی کم ہے اور ملک کو رواں مالی سال کے دوران بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن میں گراںٹس کا حصہ صرف ایک فی صد ہے۔