پاکستان ميں صوبہ خيبر پختونخوا کی وادی سوات ميں گزشتہ ايک ماہ کے دوران کم از کم چھ خواتين کو مبينہ طور پر غيرت کے نام پر قتل کيا گيا ہے۔ پوليس کے مطابق اس ضمن ميں کچھ گرفتارياں بھی عمل ميں لائی گئيں ہيں۔
سوات کی تحصيل بريکوٹ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ايس پی) بادشاہ حضرت نے وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ميں کوئی شک نہيں کہ سوات ميں خواتين قتل ہوئی ہیں ليکن يہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ ہر عورت غيرت کے نام پر قتل نہيں ہوتی۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ ميڈيا ميں ہر قتل کو غيرت کے نام پر قتل سے جوڑا جاتا ہے ليکن لوگوں کے معاشی، نفسياتی، سماجی اور دوسرے عوامل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جنہيں سمجھنا بہت ضروری ہے۔
ڈی ايس پی بادشاہ حضرت کے مطابق بدقسمتی سے علاقے ميں گھريلو تشدد ميں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق وہ ہر کيس کی مکمل تحقیقات کے بعد اس کو مخصوص کيٹيگری ميں ڈالتے ہيں۔ سارے کيسز کا تعلق نفسيات سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
گزشتہ ماہ کے ايک کيس کا حوالہ ديتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ ايک 45 سالہ شادی شدہ خاتون کو بريکوٹ میں قتل کيا گيا۔ خاندان والوں نے پوليس کو بتايا کہ انہيں نامعلوم افراد نے قتل کيا ہے۔ ليکن بعد ازاں مکمل تفتيش کے بعد اس کے خاندان کو ہی قصور وار قرار پايا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ پوليس کبھی بھی کسی رپورٹ پر اندھا اعتماد نہيں کرتی اور مکمل تفتيش کے بعد ہی کسی فيصلے پر پہنچتی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی بھی ملزم بھاگنے ميں کامياب نہيں ہوا ہے۔
'يہ صرف وہ کيسز ہيں جو رپورٹ ہوئے ہيں'
سوات ميں خواتين کے حقوق کے لیے سرگرم ادارے ‘دی اويکننگ’ کے پروگرام کوآرڈينيٹر شمشير علی کہتے ہیں کہ يہ صرف وہ کيسز ہيں جو پوليس کے پاس رپورٹ ہوئے ہيں جب کہ حقيقت میں کیسز کی تعداد اس سے کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے شمشیر علی نے بتايا کہ بنيادی وجوہات يہاں کی قدامت پسند ثقافت ہے۔ اگر کوئی خاتون کوئی بھی ايسا کام کرے جو کہ گھرانے کے مردوں کو ان کی شان کے خلاف لگے تو پھر اسے غيرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
شمشير خان کے مطابق دوسری بنيادی وجہ ملک ميں قانون کا صحيح استعمال نہ ہونا ہے۔ معاشرے کے زيادہ تر افراد کو اس بارے ميں آگاہی بھی نہيں ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں کے دلوں ميں سزا کا خوف نہيں ہوتا۔ يہی وجہ ہے کہ قانون نافذ ہونے کے باوجود غيرت کے نام پر قتل رکنے کا نام نہيں لے رہے ہيں۔
'غيرت کے نام پر قتل کے مستند اعداد و شمار نہيں ہيں'
ضلع دير کی رہائشی سماجی کارکن شاد بيگم طويل عرصہ سے خواتين کے حقوق پر کام کر رہی ہيں۔ ان کے مطابق انہوں نے يہ تمام چھ کيسز خود مقامی لوگوں اور تھانوں سے تصديق کیے ہيں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے شاد بيگم نے بتايا کہ بدقسمتی سے پاکستان ميں غيرت کے نام پر قتل کے کوئی مستند اعداد و شمار نہيں ہيں اور ہم صرف ان کيسز کو سچ مانتے ہيں جو پوليس کے پاس رپورٹ کیے جاتے ہيں جب کہ حقيقت اس کے بلکل برعکس ہے اور کيسز کی شرح بہت زيادہ ہے کيوں کہ بہت سارے کيسز تھانوں تک آتے ہیں نہيں ہیں۔
سماجی کارکن کے مطابق غيرت کے نام پر قتل صرف سوات تک محدود نہيں ہيں بلکہ بہت سارے دوسرے علاقوں ميں بھی ہو رہے ہيں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کی وجہ سے ملک ميں جاری لاک ڈاؤن سے بہت سارے مسائل نے جنم ليا ہے۔ اس لحاظ سے کميونيکيشن کی شديد کمی ہے اور مستند اعداد و شمار کی کمی کے باعث لوگ اسے سچ نہيں مانتے اور نہ ہی اتنی اہميت ديتے ہيں۔
اس وقت صوبہ خيبر پختونخوا ميں خواتين کے حقوق کے حوالے سے تمام علاقوں ميں کميشن بنے ہوئے ہيں۔
شاد بيگم کے مطابق بدقسمتی معاشرے ميں خواتين کے مسائل کو زيادہ سنجيدگی سے نہيں ليا جاتا۔ پاکستان ميں غيرت کے نام پر قتل کا معاملہ کبھی بھی قابل توجہ نہيں سمجھا گيا۔
پاکستان ميں انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے 'ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں 108، پنجاب میں 159 جب کہ خيبر پختونخوا میں 40 خواتين کو غيرت کے نام پر قتل کيا گيا۔
دوسری جانب پنجاب بھر ميں 55 اور خيبر پختونخوا ميں 35 مرد غيرت کے نام پر قتل کیے گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ايچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق يہ اعداد و شمار معاشرے ميں غيرت کے نام پر قتل کا ايک رخ ہے جب کہ صحيح اعداد و شمار اس سے کہيں زيادہ ہو سکتے ہيں۔
سماجی کارکن شاد بيگم کے مطابق معاشرے ميں خواتين کو اپنے مسائل رپورٹ کرنے ميں بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول اگر کوئی خاتون گھريلو تشدد يا غيرت کے نام پر قتل کو رپورٹ بھی کرنا چاہے تو اسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سب سے پہلے اسے ذاتی تحفظ اور قانونی چارہ جوئی کے لیے وکيل کے درکار ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ سر چھپانے کے لیے محفوظ پناہ گاہ اور ضروری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے رقم کی فراہمی جيسے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔