ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کریں۔
امریکی معاون وزیر خارجہ، جان سلیوان نے جمعے کے روز افغانستان کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کو بتایا کہ ’’میدانِ جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، اس کا سیاسی حل ڈھونڈنا ضروری ہے‘‘۔
سلیوان کے بقول، ’’ہمیں یہ حقیقت ضرور تسلیم کرنا ہوگی کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے پر بضد ہے، جب کہ طالبان کی جانب سے دوطرفہ مفاد میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جاتی‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سوچ میں تبدیلی‘‘ ضروری ہے۔
عہدے دار نے کہا کہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے طالبان کو ٹھوس عزم کا اظہار کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے ساتھ روابط ختم کریں گے، تشدد بند کردیں گے اور افغان آئین کو تسلیم کریں گے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے، ہمیں مل کر طالبان کو تنہا کرنا ہوگا؛ جب کہ وہ آمدن اور ہتھیاروں کے ذرائع تلف کرنے پر تیار ہوں، اور اتحاد اور برجستہ عزم کا اظہار کریں کہ وہ صرف ایک ہی طریقے سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں، جو مذاکرات کی میز ہے، نا کہ میدانِ جنگ‘‘۔
اگست میں صدر ٹرمپ نے افغانستان میں 16 برس سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت ملک میں مزید فوجی تعینات کیے جائیں گے جب کہ دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لیے ہمسایہ ملک، پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ اُن کی پالیسی قومی تعمیر پر نہیں بلکہ ’’دہشت گردوں کو ہلاک کرنے‘‘ پر مرتکز رہے گی۔
معاون وزیر خارجہ سلیوان نے کہا کہ ’امریکہ۔افغان مشترکہ کارروائی‘ کی مدد سے ملک کے مشرقی علاقے میں داعش کے خودساختہ دہشت گردوں کے خلاف پہلے ہی خاصی پیش رفت حاصل ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں علاقے پر اُن کا قبضہ واگزار کرایا گیا ہے اور گروپ کے عسکریت پسندوں کی ایک تہائی کا صفایا کر دیا گیا ہے۔
افغانستان کے معاون وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے حاصل کردہ کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ 10 ماہ کے اندر، افغان خصوصی افواج نے 200سے زائد کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں شدت پسند اور غیر ملکی دہشت گرد لڑاکوں کو خاصا جانی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو 1.9 ارب ڈالر امداد روکنے کا اعلان کیا، جب تک پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی شہرت رکھنے والے افغان سرکش گروہ کے خلاف ’’فیصلہ کُن اقدام‘‘ نہیں کرتا۔
منجمد ہونے والی رقوم میں ایک ارب ڈالر کے دفاعی آلات اور مزید 90 کروڑ ڈالر کی ادائگیاں شامل ہیں جو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق ہیں۔
سلیوان نے کونسل کو بتایا کہ ’’ہم پاکستان کے ساتھ پیوستگی اور مؤثر طور پر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن، اگر حالات جوں کے توں رہے تو کامیابی حاصل نہیں ہوگی؛ یوں کہ ملک کی سرحدوں کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوں، جنھیں جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی رہے‘‘۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر، ملیحہ لودھی نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ’’پاکستان میں دہشت گردانہ حرکات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت کا دارومدار افغانستان سے ملنے والی طویل سرحد کے مؤثر کنٹرول سے وابستہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم نے اپنی طرف کی سرحد پر ٹھوس اقدامات کیے ہیں، اور منتظر ہیں کہ افغانستان اپنے حصے کا کام کرے گا، جیسا کہ ہم نےاپنی سرحد پر اپنے حصے کا کام کیا ہے ‘‘۔
لودھی نے مزید کہا کہ ’’پاکستان اس عزم پر قائم ہے کہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا‘‘۔